جوکھیو قتل کیس: گورنر سندھ کا ’وفاقی جے آئی ٹی‘ تشکیل دینے کا عندیہ

گورنر سندھ وزیراعظم کا پیغام لے کر متاثرہ خاندان کے پاس پہنچے تھے—تصویر: پی ٹی آئی ٹوئٹر
گورنر سندھ وزیراعظم کا پیغام لے کر متاثرہ خاندان کے پاس پہنچے تھے—تصویر: پی ٹی آئی ٹوئٹر

کراچی: وزیراعظم عمران خان نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن صوبائی اسمبلی کی جانب سے مبینہ طور پر غیر ملکی شخص کے شکار کی ویڈیو بنانے والے نوجوان کے قتل کا نوٹس لے لیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے کیوں کہ وزیراعظم عمران خان نے براہِ راست معاملے میں دلچسپی ظاہر کی۔

مقتول کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور وزیراعظم کے نوٹس کے بعد معاملہ حکومت سندھ کے لیے تشویشناک ہوگیا ہے جبکہ نوجوان ناظم جوکھیو کے قتل کے الزام میں خود گرفتاری دینے والے پی پی پی کے ایم پی اے جام اویس پولیس کے 3 روزہ ریمانڈ پر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جوکھیو قتل کیس: پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ‘بدترین تشدد’ کی نشان دہی

تاہم متاثرہ خاندان اور حکومت سندھ کی جانب سے یقین دہانی کروائے جانے کے باوجود صوبائی حکام نے کیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نہیں تشکیل دی بلکہ اس کے بجائے پولیس افسران پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی بنادی گئی ہے۔

دوسری جانب گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے ٹھٹھہ میں مقتول کی رہائش گاہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی اور انہیں یقین دلایا کہ وہ انہیں انصاف کی فراہمی کے لیے ’ہر ممکن کوشش‘ کریں گے۔

وزیراعظم کا پیغام لے کر آنے والے گورنر نے اہلِ خانہ کے ساتھ مختصر ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے وزیراعظم نے فوری طور پر متاثرہ خاندان کے پاس جانے کے لیے کہا ‘۔

ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان تحقیقات سے مطمئن نہیں اور چاہتا ہے کہ ایک آزاد جے آئی ٹی تحقیقات کرے۔

مزید پڑھیں: جوکھیو قتل کیس: پی پی پی رکن اسمبلی 3 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

عمران اسمٰعیل نے کہا کہ سندھ حکومت ان کی درخواستوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہی، اب میں یہ معاملہ وزیراعظم کے سامنے اٹھاؤں گا اور ان سے درخواست کروں گا کہ اپنا کردار ادا کریں اور ناظم جوکھیو کے قتل کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دیں، ہم اس سفاکیت میں ملوث افراد کو نہیں چھوڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی سطح پر جے آئی ٹی کی تشکیل زیر غور ہے جس میں اعلیٰ وفاقی تحقیقاتی ایجنسیاں شامل ہوں گی اور سوگوار خاندان کو مقدمہ لڑنے کے لیے قانونی معاونت بھی فراہم کی جائے گی۔

تاہم گورنر کا یہ بھی کہنا تھا کہ نوجوان کو تلور کا شکار کرنے والے عرب کی ویڈیو بنانے کے معاملے کی وجہ سے قتل نہیں کیا گیا کیوں کہ وہ جب آتے ہیں تو علاقے کے عوام کے لیے خوشحالی لاتے ہیں۔

اگرچہ گورنر سندھ نے وفاقی حکومت کے جے آئی ٹی کی تشکیل کے اختیار کی وضاحت نہیں کی جو کہ مکمل طور پر صوبائی معاملہ ہے اور صوبائی محکمہ داخلہ کی ذمہ داری ہے، ایک سینیئر وکیل نے کہا کہ وزیراعظم اور وفاقی حکومت صرف وفاقی اداروں کے افسران پر مشتمل ’خصوصی تحقیقاتی ٹیم‘ تشکیل دے سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس سے مردہ حالت میں ملنے والے شخص کے لواحقین کا دوسرے روز بھی احتجاج

وکیل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی صوبائی حکومت کا اختیار ہے اور یہی وجہ ہے کہ سات مختلف انٹیلی جنس، تفتیشی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارکانکی شمولیت کے باوجود اس کی سربراہی ہمیشہ ایک پولیس افسر کرتا ہے۔

دریں اثنا گورنر سندھ نے وزیر اعلیٰ سندھ کو جوکھیو قتل کیس کی تحقیقات شروع کرنے کا چیلنج دیتے ہوئے اسے انکے لیے ایک ٹیسٹ کیس قرار دیا۔

تاہم گورنر نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہونے کے باوجود وزیر اعلیٰ اس اہم معاملے میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

ناظم جوکھیو کا قتل

کراچی کے علاقے ملیر میں 3 اکتوبر کو پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس سے ایک شخص کی لاش ملی تھی، جسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔

میمن گوٹھ کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر(ایس ایچ او) خالد عباسی نے بتایا تھا کہ ناظم سجاول جوکھیو کی تشدد زدہ لاش جام ہاؤس نامی فارم ہاؤس سے بدھ کی دوپہر ڈھائی بجے ملی جو ملیر کے جام گوٹھ میں پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کا فارم ہاؤس ہے۔

ایس ایچ او نے مزید کہا تھا کہ پولیس نے مقدمے میں ملوث ہونے کے شبہے میں دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

مزید پڑھیں:کراچی: رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس میں مبینہ قتل، لواحقین کا دوسرے روز بھی احتجاج

مقتول کے بھائی اور کراچی کے علاقے گھگر پھاٹک کے سابق کونسلر افضل جوکھیو نے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم پر اپنے بھائی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

ان سمیت دیگر رشتے داروں نے یہ الزام ایک ویڈیو کی بنیاد پر لگایا تھا جو ان کے بقول ناظم نے ریکارڈ کی تھی، مذکورہ ویڈیو میں ناظم نے بتایا تھا کہ انہوں نے نے ٹھٹہ کے جنگشاہی قصبے کے قریب اپنے گاؤں میں تلور کا شکار کرنے والے کچھ بااثر افراد کے مہمانوں کی ویڈیو بنائی تھی جس پر انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔

مذکورہ ویڈیو میں مقتول نے بتایا تھا کہ اس نے تلورکا شکار کرنے والے چند افراد کی ویڈیو اپنے موبائل فون پر بنائی تھی جس کی وجہ سے اس کا فون چھین لیا گیا اور مارا پیٹا بھی گیا تھا، انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ان کا فون واپس کر دیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کی تھی۔

مزید پڑھیں: میہڑ میں قتل کا معاملہ:ورثا کا پی پی پی رکن اسمبلی کی گرفتاری کا مطالبہ

تاہم فون کرنے کے باوجود بھی جب پولیس مدد کے لیے نہیں پہنچی اور شکار کرنے والے واپس چلے گئے تو وہ تشدد کی شکایت درج کرانے کے لیے مقامی تھانے گئے تھے۔

مقتول میں ویڈیو میں بتایا تھا کہ انہیں دھمکی آمیز فون آئے اور کہا گیا کہ وہ ویڈیو ڈیلیٹ کردیں یا پھر سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا اگر انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کے ذمے دار وہ لوگ ہوں گے جن افراد کے گھر ’شکاری مہمان‘ ٹھہرے تھے۔

پوسٹمارٹم رپورٹ میں بدترین تشدد کی تصدیق

مقتول ناظم جوکھیو کا پوسٹ مارٹم ڈاکٹر محمد اریب نے کیا تھا جس میں انکشاف ہوا کہ سر سمیت پورے جسم پر بے شمار زخم تھے۔

بدترین تشدد کے باعث مقتول کو اندرونی طور پر خون کا رساؤ شروع ہوگیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق لاش پر سخت اور نوکیلی چیزوں سے تشدد کیے جانے کے نشانات تھے جبکہ پرائیویٹ پارٹس پر بھی بری طرح مارنے کے نشان تھے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پورے چہرے پر سرخ اور جامنی رنگ کے متعدد زخم تھے جب کہ آنکھیں گہرے زخموں کے ساتھ سوجی ہوئی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں