ججز پر سرعام تنقید سے ان کا مورال، عوام کا عدلیہ پر بھروسہ متاثر ہوتا ہے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2021
جسٹس منصور علی شاہ نے یہ ریمارکس ضلعی عدالت کے 2 ججز کی اپیل پر دیے— فائل فوٹو: سپریم کورٹ
جسٹس منصور علی شاہ نے یہ ریمارکس ضلعی عدالت کے 2 ججز کی اپیل پر دیے— فائل فوٹو: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ججز پر سرِعام تنقید سے نہ صرف جج اور ان کے ساتھیوں کے مورال اور اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے بلکہ عدلیہ کے ادارے پر عوام کا بھروسہ بھی کم ہوتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سید منصور علی شاہ نے یہ ریمارکس لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے 2 ضلعی ججز کے خلاف کی گئی سخت تنقید کو ختم کرتے ہوئے دیے۔

لاہور ہائی کوٹ نے دونوں ججز کے عدالتی احکامات کے خلاف اپیل پر فیصلہ کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ اس خاص معاملے میں ان کا طرزِ عمل ’مشکوک‘ معلوم ہوتا ہے اور 22 جون کو ایک فیصلے میں ان پر تنقید کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے ایک اور جج کی ازخود اختیارات کو کنٹرول کرنے کی کوشش

ججز نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے اور پابندی کے خلاف اپنی شکایات کے ازالے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے خلاف دیا گیا فیصلہ اور تنقید، سپریم کورٹ کی جانب سے 2019 میں نصرت یامین کیس میں نافذ کردہ اصولوں کی توہین ہے اور عدالت پر زور دیا کہ انہیں حذف کیا جائے۔

اپنے فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ ’ایک اپیلیٹ کورٹ کی جانب سے ماتحت عدلیہ کے کسی جج کے فیصلے پر بیٹھتے ہوئے اس کے عدالتی طرزِ عمل سے متعلق سرِعام تنقید، چاہے فیصلے میں تنقیدی ریمارکس کے ذریعے یا پھر جج کو طلب کر کے عدالت میں اس کی سرزنش کرنا، یہ ایک آئینی جمہوریہ کی عدالت کو زیب نہیں دیتا جو عدلیہ کی آزادی کو اپنا ستون قرار دیتی ہو‘۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، دیگر تمام ججز کی وکلا کی ہڑتال کے باوجود عدالتوں میں حاضری

سپریم کورٹ نے کہا کہ اس سرزمین کی ’اوپر سے نیچے تک‘ عدالتوں کے ہر جج کا تحفظ ہونا چاہیے، یہ استثیٰ ہر جج پر لاگو ہوتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ وہ اپنے فیصلوں اور خیالات میں آزاد ہو۔

ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے نصرت یامین کیس میں نافذ کردہ اصولوں کو بھی دہرایا جس کے مطابق اگر اپیلیٹ کورٹ کے سامنے ماتحت عدلیہ کے فیصلے پر اعتراض کیا گیا ہو تو اسے اپنے فیصلے میں جج کے خلاف اس کے طرز عمل یا اس کی کارکردگی پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔

اسی طرح اپیلیٹ کورٹ کو ماتحت عدالت کے اس جج کو عدالت میں طلب نہیں کرنا چاہیے جس کے فیصلے یا حکم پر اس کے سامنے اعتراض کیا گیا ہو اور طریقہ کار کی کسی غلطی یا بے ضابطگی کی صورت میں اس کے بارے میں متعلقہ جج کو ایک خفیہ نوٹ کے ذریعے آگاہ کیا جاسکتا ہے جو حکم نامے سے علیحدہ ہو۔

ساتھ ہی سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اگر اپیلیٹ کورٹ سمجھتی ہے کہ ماتحت عدلیہ کے کسی جج نے سنگین نااہلی یا عدالتی فرائض کی انجام دہی میں غفلت کا مظاہرہ کیا ہے جس پر ضابطہ کی کارروائی بنتی ہے تو اس حوالے سے متعلقہ اتھارٹی یا اس کے لیے مقررہ افسر کو آگاہ کیا جاسکتا ہے تاکہ ایک خفیہ رپورٹ کے ذریعے اس قسم کی شکایات سے نمٹا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:ججز، بیوروکریٹس پلاٹس الاٹمنٹ کیس: سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا

اس کے بعد متعلقہ اتھارٹی یا افسر سروس قوانین، قواعد و ضوابط اور ہدایات کے مطابق اس قسم کی خفیہ رپورٹ سے نمٹیں گے۔

ماتحت عدلیہ کو ملک کے عدالتی نظام کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ضلعی ججز مشکل ماحول میں فرنٹ لائٹ پر رہتے ہوئے بڑی تعداد میں کیسز سے نمٹتے ہوئے انصاف کی فراہمی کی بھاری ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔

ساتھ ہی کہا گیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو انہیں اس مشکل اور تناؤ سے بھرپور صورتحال میں کام کرنے پر سراہنا چاہیے۔

بعد ازاں عدالت نے ضلعی ججز کے خلاف تنقید کو حذف کردیا اور کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جج کو مذکورہ مثالوں میں طے شدہ اصولوں کے مطابق کام کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں