سپریم کورٹ کے ایک اور جج کی ازخود اختیارات کو کنٹرول کرنے کی کوشش

اپ ڈیٹ 30 ستمبر 2021
کیس کے آغاز میں جسٹس آفریدی نے اس معاملے کو سننے سے قاصر ہونے کا اظہار کیا —فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
کیس کے آغاز میں جسٹس آفریدی نے اس معاملے کو سننے سے قاصر ہونے کا اظہار کیا —فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کی دفعہ 184 (3) کے تحت اختیار کو ریگولرائز کرنے کے لیے باقاعدہ قواعد تشکیل دینے تک از خود نوٹس کی سماعت نہیں کرسکتے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک تین رکنی بینچ سے دستبردار ہوتے ہوئے کیا۔

جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل بینچ نے سندھ کے محکمہ تعلیم میں تعیناتیوں سے متعلق سال 2018 میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: ازخود نوٹس کے معاملات پر غور کیلئے سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل

کیس کے آغاز میں جسٹس آفریدی نے اس معاملے کو سننے سے قاصر ہونے کا اظہار کیا اور کہا کہ اس طرح کے کیسز بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر یا عوامی مفاد کے معاملے پر لیے جانے چاہئیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ازخود مقدمات کے طریقہ کار کا تعین کہ ایسا ہو جو اس حوالے سے رہنما ہدایات فراہم کرے کہ بینچ کس طرح تشکیل دیا جائے اور آرٹیکل 184(3) کے تحت جو بینچ کیس اٹھائے اس کی ترتیب کیا ہو۔

چنانچہ جسٹس مقبول باقر نے ایک نئے بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کو بھیج دیا۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کا نوٹس واپس، ازخود نوٹس کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، سپریم کورٹ

9 ستمبر کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے کمپلیکس میں ہوئے وکلا کے کنوینشن میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ صوابدید کی غیر منظم اور بلا روک ٹوک مشق، چاہے ججز کے تقرر یا بنچز کی تشکیل، کیسز مقرر کرنے یا از خود کارروائی کا آغاز ہو، اختیارات کے غلط استعمال کا طریقہ ہے۔

26 اگست کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ایک مختصر حکم میں کہا تھا کہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے ازخود دائرہ اختیار کی استدعا یا مفروضہ اصولوں پر مبنی تھا اور اس کی رہنمائی کی جائے گی۔

ساتھ ہی اس بات کا اشارہ دیا کہ چیف جسٹس واحد اختیار ہیں، جس کے ذریعے یہ دائرہ اختیار طلب یا فرض کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ازخود نوٹس کا استعمال بہت کم کیا جائے گا، نامزد چیف جسٹس

حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اسی طرح چیف جسٹس اپنی صوابدید پر اور اگر سپریم کورٹ کے بینچ کی طرف سے درخواست کی گئی یا سفارش کی گئی ازخود دائرہ اختیار کا استعمال کر سکتے ہیں۔

تاہم فیصلے نے واضح کیا کہ عدالت کے ازخود دائرہ اختیار کے حوالے سے یا اس میں شامل تمام زیر التوا معاملات اور ایسے بینچز سنیں گے جو وقتاً فوقتاً چیف جسٹس تشکیل دیتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں