توہین عدالت کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے اٹارنی جنرل کو پراسیکیوٹر مقرر کردیا

اپ ڈیٹ 01 جنوری 2022
عدالتی رجسٹرار کی جانب سے دستاویز کو باحفاظت عدالتی تحویل میں دینے کے لیے دوبارہ سیل کر دیا گیا تھا — فائل فوٹو:ڈان نیوز
عدالتی رجسٹرار کی جانب سے دستاویز کو باحفاظت عدالتی تحویل میں دینے کے لیے دوبارہ سیل کر دیا گیا تھا — فائل فوٹو:ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم اور جنگ میڈیا گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، انصار عباسی اور عامر غوری کے خلاف توہین عدالت کیس میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو پراسیکیوٹر مقرر کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اخبار کے مالک اور دیگر دو صحافیوں نے سابق چیف جج کے بیان حلفی کے بارے میں ایک خبر شائع کی تھی جس میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار پر سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی جیل سے رہائی میں تاخیر کرنے کی کوشش کا الزام لگایا گیا تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کے حلف نامہ کیس میں تحریری حکم نامہ جاری کرنے کے بعد پراسیکیوٹر کا تقرر عمل میں آیا۔

ہائی کورٹ کو سیل لفافے میں پہنچائے جانے والے رانا شمیم کے حلف نامے سے متعلق حکم میں کہا گیا کہ ’برطانیہ سے کوریئر سروس ڈی ایچ ایل کے ذریعے موصول ہونے والا سربمہر پیکج رجسٹرار نے رانا محمد شمیم کے حوالے کیا تھا‘۔

مزید پڑھیں: رانا شمیم اصل حلف نامہ پاکستان ہائی کمیشن لندن کے حوالے کریں، اٹارنی جنرل کا خط

مزید کہا گیا کہ اس میں ایک اور لفافہ تھا جس پر ڈی ایچ ایل کی مہر لگی ہوئی تھی اور اس میں ایک دستاویز تھی، جس کی تصدیق رانا محمد شمیم نے کی تھی کہ وہ وہی حلف نامہ ہے جو انہوں نے 10 نومبر 2021 کو برطانیہ میں دیا تھا اور اسے وکیل چارلس ڈی گوتھری نے نوٹرائز کیا تھا۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ رجسٹرار کی جانب سے دستاویز کو باحفاظت عدالتی تحویل میں دینے کے لیے دوبارہ سیل کر دیا گیا۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ انگریزی اخبار ’دی نیوز انٹرنیشنل‘ میں حلف نامے کے مندرجات کا تذکرہ 15 نومبر کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا تھا، جبکہ ڈویژن بینج نے زیر التوا کارروائی سے متعلق حلف نامہ اور اس میں مذکور افراد کی طرف سے ترجیحی اپیلوں کی سماعت 17 نومبر کے لیے مقرر کی تھی۔

چیف جسٹس من اللہ نے تحریری حکم نامے میں لکھا کہ اخبار میں شائع ہونے والے حلف نامے کے مندرجات اسلام آباد ہائی کورٹ اور اس کے ججوں پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عدالت کی کارروائی کو متاثر کرنے اور انصاف کے مناسب نظام میں رکاوٹ اور مداخلت کرنے کی کوشش ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ دستاویز کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں اور نہ ہی کسی اور اتھارٹی کے سامنے پیش کی گئی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اخبار کی جانب سے بغیر کسی معقول خیال کے خبر شائع کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: رانا شمیم کے نواز شریف سے ’براہِ راست رابطے‘ ہیں، احمد حسن رانا

حکم نامے کے مطابق حلف نامے پر عمل درآمد اور اس کے فوراً بعد ایک خبر کی اشاعت کا وقت ایک اہم عنصر تھا کیونکہ اس کے زیر التوا عدالتی کارروائیوں اور انصاف کی منتظمین پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے یاد دہانی کروائی کہ وکیل لطیف آفریدی نے دلائل دیے تھے کہ بیان حلفی کا مقصد اس کو پبلک کرنا تھا نہ ہی اسے کسی کے ساتھ شیئر کرنا تھا، سوال کرنے والے رپورٹر انصار عباسی کو چھوڑ دیں۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ یہ دلیل دی گئی تھی کہ رانا شمیم کے خلاف توہین کا کوئی مقدمہ نہیں بنایا جائے کیونکہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام معقول خیال رکھا تھا کہ اسے نہ تو لیک کیا جائے اور نہ ہی کسی اور طریقے سے اسے عام کیا جائے۔

آرڈر میں کہا گیا کہ رانا شمیم کا یہ مؤقف تھا کہ حلف نامہ صرف لندن میں نوٹری پبلک کے ذریعے ہی منظر عام پر لایا جاسکتا ہے، تاہم بادی النظر میں اس کی اپنی ساکھ کے بارے میں سنگین شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے حکم میں لکھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر ضابطہ اجلاق کی سنگین خلاف ورزی کے حوالے سے تین سال سے زائد عرصے تک گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کی خاموشی نے بھی ان کی امانت اور قابلیت کو مشکوک بنا دیا۔

ابتدائی طور پر عدالت میں یہ سامنے آیا کہ میر شکیل الرحمٰن، عامر غوری اور انصار عباسی کا کردار صرف اس حد تک تھا کہ لیک ہونے والی دستاویز کی بنیاد پر خبر شائع کرنے سے قبل مناسب خیال نہیں رکھا گیا۔

مزید پڑھیں: رانا شمیم بیان حلفی: ’نئے انکشافات نے شریف خاندان کو پھر سیسیلین مافیا ثابت کردیا‘

تاہم مؤخر الذکر دو مبینہ مخالفین کا مؤقف ہے کہ انہوں نے ایسی دستاویز شائع کی جس کی ثبوت کے طور پر کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن یہ 'عوامی مفاد' میں بہتر تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے لکھا کہ ’یہ مؤقف صحافت کے میدان میں بین الاقوامی صحافی معیار کے مطابق نہیں ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک پیشہ ور صحافی کا کام نہیں ہے کہ وہ 'عوامی مفاد' کے عنصر کا تعین کرے اور پھر ایسی دستاویز شائع کرے جس کا کوئی ثبوت نہ ہو‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اس دلیل کو قبول کر لیا جاتا ہے تو قانونی چارہ جوئی سمیت کسی کو بھی زیر التوا عدالتی کارروائی کے نتائج پر بالواسطہ اثر انداز ہونے اور بڑے پیمانے پر گردش کرنے والے اخبارات یا میڈیا چینلز کا استعمال کرکے 'میڈیا ٹرائل' کا سہارا لینے کا جواز پیدا ہوگا‘۔

جسٹس اطہر من اللہ نے وارم وی آسٹریلیا، درخواست نمبر 22714/93 کے کیس میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ایک صحافی کی درخواست مسترد کر دی تھی اور ویانا کی اپیل کورٹ کی طرف سے سنائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں توہین عدالت کی سزا اور اسے برقرار رکھا گیا تھا، فیصلے سے متعلقہ حصہ یہ ہے کہ ’صحافیوں کو زیر التوا مجرمانہ کارروائیوں پر تبصرہ کرتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ قابل اجازت تبصرے کی حدود ایسے بیانات تک نہیں بڑھ سکتی جن سے تعصب کا امکان ہو‘۔

تبصرے (0) بند ہیں