لوگوں کے حقوق بحال کرنا سپریم کورٹ کا بنیادی کام ہے، چیف جسٹس

04 جنوری 2022
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ انسانوں کا ملک نہیں بلکہ قانون کا ملک ہے—فوٹو: ڈان نیوز
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ انسانوں کا ملک نہیں بلکہ قانون کا ملک ہے—فوٹو: ڈان نیوز

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق پر کوئی قدغن لگائے تو سپریم کورٹ کا بنیادی کام اس کو رد کرکے بحال کرنا ہے۔

اسلام آبائی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ‘وکیل کا کام مقدمے کی پیروی اور عدالت کا کام مقدمے کا فیصلہ دینا ہوتا ہے، دونوں کا کام قانون سے متعلق ہوتا ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: کراچی کی مدینہ مسجد کو مسمار کرنے سے روکنے کی استدعا مسترد

انہوں نے کہا کہ ‘وکیل اور عدالت دونوں قانون کی عمل داری پر یقین رکھتے ہیں، دونوں قانون کو ہر چیز سے بالاتر سمجھتے ہیں، آئین اور عدالت کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں’۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘آئین کی آزادی اور آئین کے سارے معاملات، تمام بنیادی حقوق محفوظ کرنا سپریم کورٹ کا کام ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘لوگوں کو بنیادی حقوق پر کام کرنے کا موقع دینا اور اگر کوئی اس پر قدغن لگائے یا رکاؤٹ کھڑی کرے، کوئی مسائل پیدا کرے تو ان تمام مسائل کو رد کرکے لوگوں کے بنیادی حقوق بحال کرنا ہمارا کام ہے اور یہی ہمارا بنیادی کام ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘لوگوں کے مقدمے آتے ہیں اور ہم فیصلے دیتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں قانون کی عمل داری ہونی چاہیے، ہر چیز قانون کے مطابق ہونا چاہیے’۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘یہ انسانوں کا ملک نہیں ہے، یہ قانون کا ملک ہے، قانونی طریقے سے ملک کی حکمرانی ہونی چاہیے، پاکستان کے اندر سب سے بڑا ہتھیار قانون ہے، اس کے علاوہ پاکستان کے اندر اور کوئی ہتھیار نہیں ہے’۔

مزید پڑھیں: کراچی: سپریم کورٹ کا کڈنی ہل پارک کی زمین پر بنی مسجد، مزار گرانے کا حکم

انہوں نے کہا کہ ‘میں وکیل اور جج میں کوئی تفریق نہیں کرتا، میرے کام کا وہی سلسلہ چلتا آرہا ہے جو میں وکالت سے کرتا چلا آرہا تھا، فرق یہ ہے کہ میں بینچ کی دوسری طرف بیٹھتا ہوں لیکن میں بنیادی طور پر وکیل ہوں اور میرے واپسی وکیلوں کے پاس ہوگی’۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے ارکان کو مخاطب کرکے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ‘اسلام آباد ہائی کورٹ سے بار کے کوئی مسئلے ہیں تو ان کا کچھ عندیہ ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس وقت اس کی نوعیت کیا ہے’۔

تبصرے (0) بند ہیں