میانمار: فوجی عدالت نے آنگ سان سوچی کو نئے کیسز میں مزید 4 سال قید سنادی

اپ ڈیٹ 11 جنوری 2022
نوبل انعام یافتہ رہنما آن سانگ سوچی یکم فروری سے قید میں ہیں —فوٹو:فائل/ اے ایف پی
نوبل انعام یافتہ رہنما آن سانگ سوچی یکم فروری سے قید میں ہیں —فوٹو:فائل/ اے ایف پی

میانمار کی فوجی حکومت کی عدالت نے نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی کو مزید 3 کیسز میں 4 سال قید کی سز سنادی ہے، جنہیں گزشتہ برس یکم فروری کو فوجی بغاوت کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم کرکے حراست میں رکھا ہوا ہے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 76 سالہ بزرگ رہنما آنگ سان سوچی کو غیر قانونی طور پر واکی ٹاکی استعمال کرنے اور کورونا رولز توڑنے کے الزامات پر سزا سنائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں :میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف دوسرے روز بھی مظاہرے جاری

فوجی حکومت کے ترجمان میجر جنرل ضامنتن نے فیصلے اور سزا کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سوچی گھر میں نظر بند رہیں گی اور ان کے خلاف دیگر کیسز بھی چلتے رہیں گے۔

آنگ سان سوچی پر واکی ٹاکی الزامات اس وقت سامنے آئے تھے جب بغاوت والے دن اہلکاروں نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا اور مبینہ طور پر ممنوعہ آلات برآمد کیے تھے۔

برطرف رہنما کے خلاف پیر کو سنائی گئی سزا گزشتہ ماہ دسمبر میں کورونا رولز توڑنے اوراشتعال انگیز تقاریر کے الزامات پر سنائی سزا میں اضافہ ہے، جس کے تحت ان کو جیل بھیجا گیا تھا۔

فوجی حکومت کے سربراہ من آنگ ہلینگ نے سزا کو دو سال تک کم کر دیا اور کہا کہ وہ دارالحکومت نیپیداو میں نظر بند رہ کر اپنی مدت پوری کر سکتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 6 سال کی قید کا مطلب یہ ہوگا کہ سوچی نئے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گی جن کا فوجی حکام نے اگست 2023 تک انعقا کا وعدہ کیا ہے۔

گزشتہ ماہ آنے والے فیصلے پر عالمی سطح پر مذمت کی گئی تھی اور میانمار کے عوام نے غصے کے اظہار کے لیے پرانے طریقے کےمطابق برتن بجائے تھے، ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ایشیا ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے تازہ فیصلوں کی مذمت کی۔

مزید پڑھیں :میانمار: انٹرنیٹ سروس معطل، ہزاروں افراد کا فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ

انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ میانمار کی حکومت کی جانب سے جھوٹے الزامات پر خفیہ کارروائیوں کا بند کمرہ عدالت کا سرکس آنگ سان سوچی کے خلاف مسلسل مزید سزاؤں کا ڈھیر لگانا ہے تاکہ وہ غیر معینہ مدت تک جیل میں رہیں۔

صحافیوں کو بھی سماعتوں میں شرکت سے روک دیا گیا اور سوچی کے وکلا کو میڈیا سے بات کرنے نہیں دیا گیا۔

سابق رہنما کے خلاف یہ فیصلے کمبوڈیا کے طاقتور رہنما ہن سین جو اس وقت علاقائی بلاک آسیان کے لیے کرسی پر فائز ہیں، کے میانمار میں من آنگ ہلینگ کے ساتھ بات چیت کے چند دن بعد سامنے آئے ہیں۔

آسیان نے میانمار کے بحران کو کم کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہن سین کے دورے کی انسانی حقوق کے گروپوں اور جنتا مخالف کارکنوں کی جانب سے تنقید کی گئی تھی۔

آنگ سان سوچی کو پچھلی فوجی حکومت نے میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون میں ان کی خاندانی حویلی میں طویل عرصے تک نظر بند رکھا تھا۔

آج وہ دارالحکومت کے کسی نامعلوم مقام پر قید ہیں اور ان کا باہر کی دنیا سے رابطہ صرف ان کے ٹرائل کے دوران وکلا کی ملاقات تک محدود ہے۔

یہ بھی پڑھیں :میانمار میں فوجی بغاوت: آنگ سان سوچی پر غیر قانونی آلات کی درآمد کے الزامات عائد

مذکورہ کیس کے علاوہ وہ مختلف کرپشن، اور خفیہ سرکاری ایکٹ کی خلاف ورزی کے کیسز کا بھی سامنا کررہی ہیں جن میں سے ہر ایک کی سزا 15سال تک قید ہے۔

یاد رہے کہ نومبر میں وہ اور میانمار کے صدر سمیت دیگر 15 حکام پر بھی 2020 کے انتخابات کے دوران مبینہ انتخابی دھاندلی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی نے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی، جس نے 2015 کے انتخابات کے مقابلے میں فوج سے منسلک پارٹی کو بڑے مارجن سے شکست دی تھی، بغاوت کے بعد سے، ان کے بہت سے سیاسی اتحادیوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں سے ایک وزیر اعلیٰ کو 75 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ دیگر کئی رہنما روپوش ہیں۔

مقامی مانیٹرنگ گروپ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ فوج کی بغاوت کے خلاف ہونے والے احتجاج کو روکنے کے لیے کریک ڈاؤن اور پکڑ دھکڑ کے دوران 1400 سے زائد افراد قتل کردیے گئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں