میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف دوسرے روز بھی مظاہرے جاری

اپ ڈیٹ 07 فروری 2021
مظاہرین نے کہا کہ ہم فوجی بغاوت قبول نہیں کرسکتے
---فوٹو: اے ایف پی
مظاہرین نے کہا کہ ہم فوجی بغاوت قبول نہیں کرسکتے ---فوٹو: اے ایف پی
مظاہرین نے کہا کہ ہم فوجی بغاوت قبول نہیں کرسکتے
---فوٹو: اے ایف پی
مظاہرین نے کہا کہ ہم فوجی بغاوت قبول نہیں کرسکتے ---فوٹو: اے ایف پی

میانمار کے سب سے بڑے شہر میں فوجی بغاوت اور معزول رہنما آنگ سان سوچی کی گرفتاری کے خلاف دوسرے روز بھی سیکڑوں افراد نے احجتاج کیا۔

غیرملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق انٹرنیٹ سروس کی بندش اور فون لائنوں پر پابندی کے باوجود بڑی تعداد میں مظاہرین جمع ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: انٹرنیٹ سروس معطل، ہزاروں افراد کا فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ

مقامی میڈیا کے مطابق 2007 میں بدھ مت راہب کی زیر قیادت زعفران انقلاب کے بعد اس وقت ملک میں سب سے بڑے مظاہرے جاری ہیں۔

میانمار کے تجارتی دارالحکومت ینگون میں مظاہرین نے سرخ غبارے اٹھا رکھے تھے جو آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ ڈیموکریسی پارٹی (این ایل ڈی) کی نمائندگی کرتے ہیں۔

مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ ’ہم فوجی آمریت نہیں چاہتے! ہم جمہوریت چاہتے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: فوجی بغاوت کے وقت پارلیمنٹ کے سامنے ڈانس کرنے والی خاتون مقبول

اتوار کی صبح یانگون کے اطراف سے بڑے پیمانے پر جمع ہونے والا ہجوم ہلڈن ٹاؤن شپ پر جا پہنچا تھا اور انٹرنیٹ سروس اور فون لائنوں کی بندش کی وجہ سے فیس بک پر چند مظاہرے کے مناظر نشر ہوئے۔

ینگون کے شمال سے 350 کلومیٹر دور دارالحکومت نیپائٹاو میں جنتا کی طرف سے کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: آنگ سان سوچی کا عوام پر فوجی بغاوت قبول نہ کرنے کیلئے زور

احتجاج میں شریک ایک شہری نے کہا کہ انہوں نے پہلے ہی انٹرنیٹ بند کرنا شروع کر دیا تھا اگر وہ زیادہ حکمرانی کرتے ہیں تو وہ تعلیم، کاروبار اور صحت پر مزید دباؤ ڈال دیں گے۔

22 سالہ ایک لڑکے نے کہا کہ ’ہم فوجی بغاوت قبول نہیں کرسکتے، یہ ہمارا مستقبل ہے جس کے تحفظ کے لیے ہمیں نکلنا ہوگا‘۔

صبح تک جنوب مشرق میں واقع ساحلی قصبے مولامائن میں تقریباً 100 افراد موٹرسائیکلوں پر سڑکوں پر نکل آئے جبکہ وسطی میانمار کے منڈالے شہر میں طلبہ اور ڈاکٹر جمع تھے۔

دوسری جانب سیکڑوں مظاہرین نے جنوب مشرق میں ریاست کیرن کے شہر میں پولیس اسٹیشن کے باہر رات بسر کی جہاں خیال کیا جاتا ہے کہ این ایل ڈی کے مقامی قانون سازوں کو گرفتار کرکے رکھا گیا ہے۔

خیال رہے کہ میانمار میں فوج نے یکم فروری کی صبح جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔

مزیدپڑھیں: میانمار میں فوج اقتدار پر قابض، آنگ سان سوچی زیرحراست

فوج کے زیر ملکیت ایک ٹی وی اسٹیشن پر جاری بیان کے مطابق فوج نے کہا تھا کہ اس نے انتخابی دھاندلی کے جواب میں نظربندیاں کی ہیں جس میں فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ کو اقتدار دیا گیا ہے اور ملک میں ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

بغاوت کی یہ صورتحال سول حکومت اور فوج کے درمیان کئی روز سے جاری کشیدگی میں اضافے کے بعد سامنے آئی جس نے انتخابات کے نتیجے میں بغاوت کے خدشات کو جنم دیا تھا۔

سیاسی کشیدگی اس وقت بڑھ گئی تھی جب ایک فوجی ترجمان نے نئی پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل بغاوت کو مسترد کرنے سے انکار کردیا تھا اور فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ نے آئین ختم کیے جانے کے امکان کو بڑھا دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں