دن چڑھتے ہی ایک مجمع لگ چکا تھا، خلقت جمع تھی اور گاڑیوں کا سمندر تھا۔ اردگرد دیو قامت چیڑ کے درخت اور برف کی سفید چادر اوڑھے پہاڑ کھڑے تھے۔ سانپ کی طرح بل کھاتی مری کی سڑک کنارے مقامی افراد سیاحوں کو رنگ برنگی چھتریاں، گرم مفلر، جرابیں، پانی اور چائے فروخت کرتے نظر آرہے تھے۔ حسبِ معمول معیاری، غیر معیاری ہوٹلوں اور گیسٹ ہاوسز کے دلال سیاحوں کی ضرورت اور جیبوں کے وزن کو اپنی لالچی آنکھوں کے ترازو میں تولنے اور بھاؤ تاؤ میں مصروف تھے۔

چھٹیوں کے دن تھے اور شہروں کے مسائل میں گھرے لوگ گاڑیوں میں بھر بھر کر مری اور نتھیا گلی کا رخ کر تے چلے جارہے تھے۔ خاندان ہوں یا نوجوان لڑکوں کے گروہ، گاڑیوں کے ٹیپ ریکارڈر پر اونچی آواز میں گانوں کے ساتھ اپنے سُرتال ملاتے ہوئے تفریح اور خوشیوں کی تلاش میں مگن کوئی ایک دوسرے پر برف کے گولے اچھال رہا تھا تو کوئی سیلفیاں بنانے میں مصروف تھا۔ غرض زندگی کے رنگ ان سیاحوں کی مسکراہٹوں پر بسیرا ڈالتے نظر آتے تھے۔

مگر اب برف گرتی جارہی تھی، درجہ حرارت گھٹتا جارہا تھا، سرد ہواؤں کے جھکڑ، چیڑ کے درختوں کے جھولنے کی چیخیں اور بڑھتا اندھیرا سیاحوں کی خوشیوں پر اعصابی تناؤ کے گھیرے ڈال رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سڑک پر پڑی برف کی چادر چھوٹے چھوٹے ٹیلوں میں تبدیل ہوتی جارہی تھیں اور ہزاروں گاڑیاں پھنستی جارہی تھیں۔ کئی گھنٹے بیت گئے تھے، ہزاروں فٹ کی بلندی پر بے یار و مددگار پھنسے یہ سیاح ابتدا میں عزیز و اقارب کو فون کالز کرتے اور مدد کا انتظار کرتے رہے لیکن نہ برف ہٹانے کی مشینیں آئیں، نہ نمک پاشی کی گاڑیاں، یوں وقت کے ساتھ ساتھ مدد کی انتظار کی امید ٹوٹتی جارہی تھی۔

مزید پڑھیے: ’یہ برف نہیں تھی، آسمان سے موت گر رہی تھی‘

قطار میں پھنسی ہزاروں گاڑیاں برف میں دبتی جارہی تھیں مگر نہ سرکاری اہلکار، نہ حکومت اور نہ اربوں روپے کی لاگت سے قائم ہونے والی نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا کچھ معلوم تھا۔ یہ این ڈی ایم اے وہی ادارہ ہے جس کی تشکیل ہولناک زلزلے کے بعد ہوئی تھی کہ مستقبل میں قدرتی آفات سے نمٹنے کا ذمہ دار یہی ادارہ ہوگا۔ مگر گزشتہ برسوں میں سیلاب ہوں یا طوفانی بارشوں کی تباہ کاریاں، اس ادارے کی کارکردگی ساکت ہی رہی۔

ادھر اندھیرے کے سائے سیاحوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ رہے تھے۔ وہ رات ایک خوفناک رات کا روپ دھار چکی تھی۔ اب پریشانی یہ تھی کہ شل اعصاب اور ٹھٹھرتے بدن کے ساتھ اردگرد پناہ لیں تو کہاں لیں۔ ہوٹل ناپید اور اگر موجود بھی تھے تو رات گزارنے کے لیے ایک کمرے کی بولی 40 ، 50 ہزار تک تھی۔

ایک خاتون نے اپنے زیور دے کر ایک بڑے نام والے ہوٹل میں رات بسر کی۔ ہیٹر کی قیمت الگ وصول کی جارہی تھی۔ ابلا ہوا انڈا 500 روپے، پانی کی بوتل 300 روپے، گاڑی کے ٹائروں کے گرد زنجیر باندھنے کے 10 ہزار روپے لیے جارہے تھے۔ ایک طرف موت کے سائے تھے اور دوسری طرف سرکار اور اس کے ادارے غائب، اردگرد کچھ تھا تو سیاحتی صنعت کی لالچ اور بے رحمی تھی۔

کچھ نوجوانوں کی ٹولیاں طوفانی رات میں پیدل نکل پڑیں، چند مقامی افراد کے بھی دل ہمدردی میں پگھلے۔ لیکن کچھ بدنصیب خاندان کمسن بچوں کے ساتھ کی وجہ سے گاڑیوں میں ہی رہنے پر مجبور ہوئے۔ انجن اسٹارٹ کیا، ہیٹر کھولے اور کچھ ہی لمحات میں نیند کی آغوش میں چلے گئے لیکن وہ بے خبر تھے کہ زہریلی کاربن مونو آکسائیڈ گیس انہیں موت کی آغوش میں لے جائے گی۔

مردان کے 4 دوست ہوں یا پنڈی کا شہزاد، تلہ گنگ کا پولیس اہلکار نوید اقبال ہو یا گوجرانوالہ اور لاہور کے معروف یا اقبال، بہنیں اقرا اور عائشہ ہوں یا ان کے 2 کمسن بھائی۔ ان کے بے جان، پُرسکون چہرے، ان کے عزیز و اقارب کی آہ و بکا اور سانحہ پر غم و الم اس ریاست پر سوالات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں کہ ذمہ دار کون ہے، آخر اس مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار کون ہے؟

جس حکومت کے منشور میں سیاحت کا فروغ کلیدی نکتے کی حیثیت رکھتا ہے اس حکومت کے وزرا اور مشیران کے بیانات کا جوابدہ کون ہوگا جو سانحہ سے قبل شادیانے بجا رہے تھے کہ مری میں ایک لاکھ گاڑیاں داخل ہوئیں، ہر طرف سیاح ہی سیاح ہیں، معیشت پھل پھول رہی ہے۔ گویا حکومت کے نقادوں پر لعنت ہو اور سرکار کا بول بالا ہو۔

سانحہ رونما ہوا تو ستم ظریفی دیکھیے کہ بیانات نے بھی قلابازی کھائی۔ وزیرِاعظم ہوں یا ان کے مشیرانِ خاص سب کے مذمتی بیانات میں یہ سطر بھی شامل تھی کہ سیاحوں کو موسم کی پیش گوئی دیکھ کر سفر کرنا چاہیے تھا۔ گویا ذمہ داری لوگوں کی ہے۔

سوال یہ ہے کہ مری میں 6، 7 ہزار گاڑیوں کی گنجائش ہے تو لاکھ گاڑیوں کے داخلہ پر شادیانے کیوں بجائے جارہے تھے؟ سرکاری امدادی ٹیموں کی تاخیر سے بزدار سرکار کی نااہلی تک سوالات کی ایک طویل فہرست ہے۔ ذمہ داری تو حکومتِ وقت کی ہے لیکن اس موقع پر اپوزیشن جماعتیں بھی اپنی سیاست چمکا رہی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ہو یا مسلم لیگ (ن) کے سیاستدان سب اقتدار میں رہے ہیں۔ کوئی بتائے کہ ان کے دور میں کون کون سے ترقیاتی کام ہوئے ہیں؟ پہاڑوں پر موجود جنگلات ٹمبر مافیا کی نذر کیسے ہوئے؟ بزرگوں سے سنا تھا کہ برِصغیر کی تقسیم سے قبل ماہرین کے مطابق مری کے پہاڑوں پر لکڑی سے تعمیرات ہونی چاہیے تھی، لیکن ان حکمرانوں کے اقتدار میں پہاڑوں پر کنکریٹ کے غیر قانونی کمرشل پلازہ کس طرح تعمیر ہوئے؟ کنسٹرکشن مافیا کا راج کیسے قائم ہوا؟ آپ قدرت کے نظام پر ظلم ڈھائیں گے تو آپ بھی قدرت کے شکنجے میں جکڑے جائیں گے۔

شاہد خاقان عباسی وزیرِاعظم رہے ہیں، ان کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔ پھر عید ہو یا انتخابات کے نتائج یا پھر کوئی کٹھن موقع ہو تو عمران خان صاحب بھی انہی پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں۔ شریف خاندان ہو یا زرداری یا برطانوی راج کے ’وفادار‘ سیاستدان ہوں، سب نے وائس رائے کی طرح ان تفریحی مقامات پر موسمِ گرما کے لیے بڑے بڑے گھر بنائے ہوئے ہیں۔

درحقیقت اس دھرتی پر دو پاکستان ہیں۔ ایک اشرافیہ کا اور دوسرا مسائل میں گھرے عوام کا۔ یہاں دوہرے معیار ہیں، دوہرا انصاف ہے اور دوہرا احتساب ہے۔

مزید پڑھیے: سانحہ مری: گاڑیوں میں دم گھٹنے کے واقعات سے کس طرح بچا جائے؟

یہاں ایک طبقاتی خلیج ہے جس نے معاشرے کو تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک پاکستان میں اشرفیہ کو جدید دنیا کی تفریحات کا حق حاصل ہے اور دوسری طرف محرومیوں کا ڈھیر ہے۔ ایک طرف دولت کے انبار ہیں دوسری طرف غربت، جہالت اور مذہبی انتہا پسندی کے ڈیرے ہیں۔

ہزارہ برادری کے کان کن ہوں یا کراچی کی بلدیہ فیکٹری کی آگ میں جاں بحق ہونے والے غریب مزدور، سانحات کی ایک ظالمانہ تاریخ ہے۔ ہر سانحہ کے بعد چیخ و پکار ہوتی ہے ٹی وی اسکرینوں پر سانحے کی پل پل کی خبریں آتی ہیں، کون ذمہ دار، کون غیر ذمہ دار کے چیختے دھاڑتے بیانات آتے ہیں اور ہر سانحے کے بعد ایک اور سانحے کا انتظار کیا جاتا ہے۔

2012ء میں کراچی کی بلدیہ فیکٹری میں آگ لگنے سے تقریباً 250 افراد ہلاک ہوگئے تھے—تصویر: اے ایف پی
2012ء میں کراچی کی بلدیہ فیکٹری میں آگ لگنے سے تقریباً 250 افراد ہلاک ہوگئے تھے—تصویر: اے ایف پی

بدقسمتی سے میڈیا بھی اکثر و بیشتر سانحے کی سیاست میں بہہ جاتا ہے یا اس کا کردار تعمیری تنقید کے بجائے سیاست کی نذر ہوجاتا ہے۔ مری میں برفانی طوفان کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں تو میڈیا آگاہی پہنچانے کا کام کرسکتا تھا۔ مگر اس وقت وہی سازشی نظریات دہرائے جارہے تھے، وہی 3 سیاستدان یا 3 سیاسی تجزیہ کار اور وہی ’نواز شریف کی واپسی ہوگی یا نہیں‘، ’کیا عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی الٹی گنتی شروع ہے‘، ’کیا اسٹیبلشمنٹ متبادل کی تلاش میں مسلم لیگ (ن) سے ڈیل کر رہی ہے یا زرداری سے‘ وغیرہ وغیرہ۔

لیکن جب ریاست کی سوچ انتشار کا شکار ہو تو معاشرے میں محقق اور دانشور غیر اہم قرار پاتے ہیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی شاید ہیجان کی نذر ہو جاتی ہیں۔

ہر سانحہ کے بعد خدشات اور عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا بوجھ اور پھر حکمرانوں کی سرد بے حسی۔ سانحہ مری میں جان چلی جانے پر سرکار کی جانب سے رقم ادا کرنے کا روایتی فارمولا دہرایا گیا ہے۔ اس مرتبہ ایک جان کی قیمت 8 لاکھ روپے رکھی گی ہے۔ انسانی جان کو بچانے کی قیمت کا سودا بھی ہونا چاہیے۔ ہم ہارے بولی آپ کی۔

افسوس صد افسوس۔

تبصرے (5) بند ہیں

Israr Muhammad khan Jan 12, 2022 01:16am
بہت ہی عمدہ تحریر ہے
Waqass Jan 12, 2022 01:31pm
bohat hi umda tareqa say is hasas mamaly per roshni dali hay apne. Pakistani waqai ashrafia ka liye alag or aam awam kay liye alag hay.
عثمان ارشد ملک Jan 12, 2022 08:31pm
یہ تمام باتیں حکومت کی ناکامی ظاہر کرتی ہیں ۔ پاکستان میں کوئی ادارہ ایسا نہیں جو کہ مثالی کام کر رہا ہو ، اور جس پر عوام کو اعتماد ہو ، ورنہ ان کے حصے عوام کی بددعائیں ہی آتی ہیں ۔
محمد جنید زبیری Jan 12, 2022 08:55pm
بہت عمدہ طریقے سے حکومتی، سیاسی اشرافیہ اور اداروں کو بے نقاب کیا ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
Ather Jan 13, 2022 12:01am
Very well written. All governments, not just the current, have failed people. Shame on them. It is also shameful for some opposition leader to ask IK to resign, as if things were any better during their regimes. You pointed this out as well in your writing.