برآمدات میں اضافہ نہ ہونے پر دوبارہ آئی ایم ایف کا رخ کرنا پڑے گا، وزیر اعظم

اپ ڈیٹ 12 جنوری 2022
وزیر اعظم نے کہا کہ برآمدات کا شعبہ ماضی میں جمود کا شکار تھا — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعظم نے کہا کہ برآمدات کا شعبہ ماضی میں جمود کا شکار تھا — فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ملکی برآمدات میں تیزی سے اضافہ نہ ہوا تو حکومت کو دوبارہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جانا پڑے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیر اہتمام 14ویں انٹرنیشنل چیمبرز سمٹ 2022 کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ برآمدات اور ٹیکس وصولی ملک کی معیشت کو فروغ دینے کے اہم محرک ہیں جس پر حکومت کی توجہ مرکوز ہے۔

وزیر اعظم نے ایک تصویر پیش کی جسے انہوں نے 'معیشت میں بہتری' قرار دیتے ہوئے کہا کہ وراثتی معاشی بحران، کورونا وائرس کے اثرات اور 'درآمدی افراط زر' (بین الاقوامی منڈی میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود تمام معاشی اشارے بلندی کی جانب بڑھ رہے ہیں)۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اپنی برآمدات میں اضافہ نہ کیا تو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈالرز کی کمی سے خسارہ بڑھتا ہے اور آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے، وزیر اعظم

وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت کے کورونا وائرس سے نمٹنے اور کاروبار کو کھلا رکھنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی پیروی برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کو مرنے نہیں دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت برآمد کنندگان، سرمایہ کاروں اور تاجروں کو درپیش رکاوٹوں اور انہیں دور کرنے اور برآمدات کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ماضی میں معیشت کے ان شعبوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جو دولت کی تخلیق کے لیے ضروری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ برآمدات کا شعبہ ماضی میں جمود کا شکار تھا لیکن موجودہ حکومت، برآمد کنندگان کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت آئی ایم ایف کی شرائط مانے یا اگلے انتخابات کی تیاری کرے؟

کانفرنس میں 50 سے زائد ریگولر چیمبرز، 10 چھوٹے چیمبرز، 13 ویمنز چیمبرز اور ڈیولپمنٹ پارٹنرز کے نمائندے، بین الاقوامی بزنس کمیونٹی، وزارتوں، حکومتی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے صدور شرکت کر رہے ہیں۔

'منی بجٹ' پیش کرنے کے حکومتی فیصلے کی وکالت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے منی بجٹ کے تعارف کو معیشت کو دستاویز کرنے کی کوشش قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ کل تخمینہ شدہ 11 کھرب روپے کی خوردہ مارکیٹ میں سے صرف 3 کھرب روپے کی مارکیٹ رجسٹرڈ ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حکومت ٹیکس آٹومیشن پر بھی کام کر رہی ہے۔

انہوں نے اسکینڈی نیوین ممالک کی طرح ٹیکس کلچر کو فروغ دینے پر زور دیا جہاں ٹیکس کا تناسب سب سے زیادہ ہے اور کہا کہ اس سال پاکستان میں 6 ہزار ارب روپے کا ریکارڈ ٹیکس ریونیو اکٹھا کیا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے ہیلتھ کارڈ کے اقدام کا حوالہ دیا جس کے تحت ہر خاندان 10 لاکھ روپے کا مفت علاج کروا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہوگئے، معاہدہ اسی ہفتے ہوجائے گا، مشیر خزانہ

عمران خان نے کہا کہ ایسی ہیلتھ انشورنس کے بارے میں دنیا میں کبھی سوچا بھی نہیں گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ معاشرے کے غریب طبقات کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے حکومت نے احساس پروگرام بھی شروع کیا ہے۔

وزیرا عظم نے بتایا کہ ملکی برآمدات تاریخ میں پہلی بار 31 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور غیر ملکی ترسیلات زر 32 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صنعت کی توسیع ملکی معیشت کے لیے بہت ضروری ہے، پاکستان میں بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے، کارپوریٹ منافع 9 کھرب 30 روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ نجی شعبے کی خریداری ایک ہزار 138 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔

وزیر اعظم نے حکومت کی کاروبار دوست پالیسیوں کی وجہ سے معیشت کی نمو کا شمار کرتے ہوئے کہا کہ آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات میں 70 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ تقریباً 3 ارب ڈالر تک اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تعمیراتی شعبہ بھی عروج پر ہے جبکہ دیہی زراعت پر مبنی معیشت نے ایک ہزار 100 ارب روپے کمائے۔

مزید پڑھیں: 'عمران خان نے ہمارے ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے'

انہوں نے کہا کہ 'ان کی معاشی حالت میں تبدیلی کا اندازہ موٹر سائیکلوں کی بڑھتی ہوئی فروخت سے لگایا جاسکتا ہے'۔

عمران خان نے دعویٰ کیا کہ بھارت اور خطے کے دیگر ممالک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے مقابلے میں پاکستان اب بھی ایک سستا ملک ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی بہت اہم ہے کیونکہ اس کی عدم موجودگی معاشرے میں کرپشن کے کینسر کا کردار ادا کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'بدعنوانی معاشرے میں قانون کی حکمرانی کے فقدان کی علامت ہے، ہماری جنگ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے لیے ہے، مختلف کارٹیلز اور مافیاز کی وجہ سے یہ ایک مشکل کام ہے جو قانون کی حکمرانی نہیں چاہتے'۔

انہوں نے شرکا کو یقین دلایا کہ راولپنڈی رنگ روڈ (آر آر آر) کے ساتھ صنعتی زونز کے قیام کے لیے تمام سہولیات اور افادیت فراہم کی جائے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ منصوبہ بدعنوانی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا جس کی وجہ سے اس کی صف بندی تبدیل ہوئی۔

وزیر اعظم نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ حکومت، اقتصادی زونز کے قیام کے لیے مناسب قیمت پر زمین کی لیز پر فراہمی کو یقینی بنائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں