اپوزیشن کا حکومتی اتحادیوں سے متنازع مالیاتی بل کی مخالفت کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 13 جنوری 2022
خورشید شاہ نے کہا کہ اگر ایم کیو ایم ہر حکومت کا حصہ رہے گی تو پھر عوام کے حقوق کے لیے کیسے لڑے گی — فائل فوٹو: ڈان نیوز
خورشید شاہ نے کہا کہ اگر ایم کیو ایم ہر حکومت کا حصہ رہے گی تو پھر عوام کے حقوق کے لیے کیسے لڑے گی — فائل فوٹو: ڈان نیوز

دو روز تک ضمنی مالیاتی بل 2021 جسے منی بجٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، پر اپنی تنقید کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے حکومتی اتحادیوں سے باضابطہ درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حکمران اتحاد سے باہر نکلیں کیونکہ پی ٹی آئی جمعرات کو اسمبلی سے متنازع بل منظور کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما خورشید شاہ نے حکمران اتحادی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، مسلم لیگ (ق) اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) سے اپیل کی۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ملک کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بچانے کا ایک حل کلیدی اتحادی ایم کیو ایم، (ق) لیگ اور جی ڈی اے کے پاس موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ حل ہے یہ کہ 'حکومت چھوڑو اور حکومت بدلو'۔

منی بجٹ کے ذریعے 350 ارب روپے ٹیکس لگانے پر پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لیگی رہنما نے کہا کہ ہم باہمی طور پر آئی ایم ایف سے بات کریں گے۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل پیش، اپوزیشن کا شور شرابا

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ 'مجھے امید ہے کہ ایم کیو ایم، جی ڈی اے، مسلم لیگ (ق) اور (یہاں تک کہ) پی ٹی آئی کے کچھ اراکین بھی اپنے ضمیر کے مطابق (بل پر) ووٹ دیں گے'۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے سندھ میں بلدیاتی حکومت ایکٹ پر ایم کیو ایم کے بعض اراکین کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے ایم کیو ایم سے کہا کہ وہ حکومت سے باہر نکل کر عوام کے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

خورشید شاہ نے ایم کیو ایم کو پچھلی تمام حکومتوں کا حصہ ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ہر حکومت کا حصہ رہیں گے تو پھر عوام کے حقوق کے لیے کیسے لڑیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ صرف حکومت اور چند وزارتوں میں رہنے کی خاطر عوام کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گے تو کل عوام آپ کو پی ٹی آئی میں شمار کریں گے۔

خورشید شاہ کا یہ تبصرہ ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی صلاح الدین کی تقریر کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے منی بجٹ پر اپنی پارٹی سے مشاورت نہ کرنے پر پہلے پی ٹی آئی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور پھر حال ہی میں پیپلز پارٹی کی زیر قیادت صوبے میں متعارف کرائے گئے متنازع بلدیاتی قانون کے معاملے پر حکومت سندھ پر تنقید کی۔

گزشتہ اجلاس میں ایم کیو ایم کے اراکین نے حکومت سے خوراک اور روزمرہ استعمال کی اشیا پر ٹیکس لگانے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے سینیٹ میں 'منی بجٹ' پیش کردیا، اپوزیشن کا شدید احتجاج

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے آج (جمعرات) اسمبلی اجلاس شروع ہونے سے دو گھنٹے قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں پی ٹی آئی اور اتحادیوں کے پارلیمانی گروپ کا اجلاس طلب کیا ہے، جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ حکومت کی جانب سے پارلیمانی گروپ کے اجلاس کے آغاز کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

ٹیکس اور ڈیوٹیز سے متعلق بعض قوانین میں ترمیم کرنے کے لیے فنانس سپلیمنٹری بل اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ترمیمی) بل 2021 کی منظوری اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کے چھٹے جائزے کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی منظوری مل جائے، اور اس کے بعد آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ تقریباً ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کا فیصلہ کرے گا۔

اس سے قبل بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کو ملک کے لیے 'صدی کا سب سے بڑا بحران' قرار دیا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا تھا کہ دو جنگوں اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی ملک نے اتنی منفی ترقی نہیں دیکھی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کو آئی ایم ایف اجلاس سے قبل منی بجٹ منظور کرانے کی کوئی جلدی نہیں

ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت آئی ایم ایف کی ہدایات اور احکامات پر عمل کرتی ہے، حکومت اور اس کے اتحادی عوام کا سامنا نہیں کر سکیں گے، یہ پاکستانی عوام آپ کے ساتھ ایسا سلوک کریں گے کہ آپ بھول نہیں پائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی قانون سازی اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو آئی ایم ایف کا غلام بنا دے گی اور یہ پاکستان کی معاشی خودمختاری پر سب سے بڑا حملہ ہوگا جس سے قومی سلامتی پر بھی اثر پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اسٹیٹ بینک کے گورنر کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی ہے جس کی تنخواہ ایک کروڑ 50 لاکھ روپے ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے جو سی پیک، ہماری خارجہ پالیسی اور ہمارے پڑوسیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کو متاثر کرے گی جبکہ اس سے ہمارے ایٹمی پروگرام کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔

بلاول بھٹو زرداری کا مزید کہنا تھا کہ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ صرف ایک دفاعی کھاتہ ہوگا اور وہ بھی اسی اسٹیٹ بینک میں جس کی نگرانی بین الاقوامی مالیاتی ادارے کریں گے، ہم اپنے جوہری پروگرام کو دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے قرض پروگرام پر آئی ایم ایف جائزہ ملتوی کرنے کی درخواست منظور

مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے الزام لگایا کہ اراکین اسمبلی کو 'ٹیلی فون کالز' موصول ہو رہی ہیں جن میں منی بجٹ کے حق میں ووٹ دینے کا کہا جا رہا ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ مرکزی بینک کے نام سے لفظ ’ریاست‘ کو ہٹا دیا جائے کیونکہ یہ آئی ایم ایف کی شاخ بن چکا ہے۔

اپوزیشن ارکان کی تقاریر کا جواب دیتے ہوئے وزیر توانائی حماد اظہر نے ہمیشہ کی طرح معیشت کی موجودہ حالت کا ذمہ دار ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن کو قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت میں گزشتہ سال 4 فیصد اضافہ ہوا جبکہ رواں مالی سال کے اختتام تک یہ 5 فیصد سے تجاوز کر جائے گی، اسی طرح محصولات کی وصولی بھی 6 کھرب روپے سے تجاوز کر جائے گی۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل نے زیادہ تر بلوچستان کے لوگوں کی حالت زار پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل کو اس کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ترجیحی بنیادوں پر استعمال کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں