حکومت کو آئی ایم ایف اجلاس سے قبل منی بجٹ منظور کرانے کی کوئی جلدی نہیں

اپ ڈیٹ 02 جنوری 2022
حکومت آئندہ ہفتے سینیٹ کا اجلاس بلانے کے لیے تیار نظر آتی ہے—فائل فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر
حکومت آئندہ ہفتے سینیٹ کا اجلاس بلانے کے لیے تیار نظر آتی ہے—فائل فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر

حکومت متنازع ضمنی مالیاتی بل 2021 المعروف منی بجٹ کو باضابطہ طور پر پیش کرنے کے لیے آئندہ ہفتے سینیٹ کا اجلاس بلانے کے لیے پوری طرح تیار نظر آتی ہے، تاکہ ایک آئینی تقاضے کو پورا کیا جا سکے۔

ساتھ ہی توقع ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پاکستان کے جائزے کو جنوری کے آخری ہفتے میں ہونے والی اگلی بورڈ میٹنگ تک مؤخر کر دے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹیکس اور ڈیوٹیز سے متعلق کچھ قوانین میں ترمیم سے متعلق فنانس بل اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ترمیمی) بل 2021 کی منظوری پاکستان کے 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے چھٹے جائزے کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 6 کھرب روپے کی ایڈجسٹمنٹس کے ساتھ ’منی بجٹ تیار‘

خیال رہے کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس 12 جنوری کو ہونے والا ہے جس میں تقریباً ایک ارب ڈالر کی قسط کی تقسیم کا فیصلہ کیا جائے گا۔

کابینہ کے ایک سینئر رکن نے ڈان کو بتایا کہ حکومت پیر (کل) کو سینیٹ کا اجلاس طلب کر سکتی ہے تاکہ وزیر خزانہ شوکت ترین فنانس (ضمنی) بل 2021 پیش کر سکیں جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 73 کے تحت ضروری ہے۔

غور طلب ہے کہ دونوں بلزکی قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے ایک روز قبل 29 دسمبر کو ایوان بالا کی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی۔

اس التوا نے کچھ حکومتی اراکین سمیت سب کو حیران کر دیا تھا کیونکہ تاثر یہ تھا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے دونوں بلز کو قانون کی شکل دینے کے لیے 12 جنوری کی آخری تاریخ مقرر کی تھی۔

مزید پڑھیں:قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل پیش، اپوزیشن کا شور شرابا

تاہم وزارت خزانہ کے ایک سینئر اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ فنڈ نے کوئی آخری تاریخ مقرر نہیں کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا جائزہ اب بھی 12 جنوری کو ہونے والے آئی ایم ایف بورڈ کے اجلاس کے ایجنڈے میں ہے اور وزارت نے اجلاس کے لیے درکار دستاویزات پہلے ہی ارسال کردی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف بورڈ باقاعدگی سے اجلاس منعقد کرتا ہے اور پاکستان کے جائزے کو مؤخر کرنے کی درخواست کے ساتھ اس سے رابطہ کیا جا چکا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے قبل ازیں اس امید کا اظہار کیا تھا کہ جنوری کے وسط تک فنانس بل پارلیمنٹ سے منظور کر لیا جائے گا اور آئی ایم ایف کو پہلے ہی نظرثانی کو دوبارہ شیڈول کرنے کا کہا جا چکا ہے۔

آئینی تقاضہ

آئین کی دفعہ 73 مالیاتی بلز سے متعلق ہے جن کی صرف قومی اسمبلی سے منظوری درکار ہے۔

تاہم دفعہ 73 (1) کہتی ہے کہ ’آرٹیکل 70 میں مذکورہ کسی امر کے باوجود کسی مالی بل کی ابتدا قومی اسمبلی میں ہوگی مگر شرط یہ ہے کہ جب کوئی مالی ل بشمول سالانہ بجٹ کے گوشوارت پر مشتمل مالیاتی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی نقل سینیٹ کو بھیجی جائے گی جو 14 دن کے اندر اس کے بارے میں سفارشات قومی اسمبلی کو دے سکے گی۔

یہ بھی دیکھیں:قومی اسمبلی میں شدید احتجاج اور ہاتھا پائی

تاہم یہ سفارشات قومی اسمبلی کو پابند نہیں کرتیں اور وہ ان پر غور کیے بغیر مالیاتی بل کی منظوری دے سکتی ہے۔

سینیٹ میں بل کے پیش ہونے کے بعد چیئرمین عام طور پر سفارشات کو حتمی شکل دینے کے لیے اسے ایوان کی کمیٹی برائے خزانہ کے پاس بھیج دیتے ہیں جبکہ سینیٹرز سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی تجاویز کمیٹی کو تحریری طور پر پیش کریں۔

ساتھ ہی چیئرمین اراکین کو بل پر عام بحث کرنے کی اجازت دیں گے، جس کے بعد سینیٹ کی فنانس کمیٹی اپنی رپورٹ سینیٹ کو پیش کرے گی جو اسے حتمی منظوری دے گی۔

جے یو آئی (ف) کے سینیٹر طلحہ محمود کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس 5 جنوری کو ہونا تھا تاہم سینیٹ کی ویب سائٹ کے مطابق اب اجلاس ملتوی کردیا گیا ہے۔

گرم و سرد اپوزیشن

اپوزیشن کے ہنگامہ آرائی کے درمیان جب بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا تو اسپیکر اسد قیصر نے اعلان کیا تھا کہ فنانس (ضمنی) بل 2021 پر ایوان میں بحث کی جائے گی اس کو قائمہ کمیٹی کے پاس نہیں بھیجا جائے گا جبکہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری سے متعلق بل کو ایک رپورٹ کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی میں بحث ہوگی۔

مزید پڑھیں:قومی اسمبلی کا اجلاس 12 منٹ جاری رہنے کے بعد غیر معینہ مدت تک ملتوی

اگرچہ مشترکہ اپوزیشن نے 29 دسمبر کو ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا تھا اراکین کی حاضری یقینی بنائی جائے گی لیکن اپوزیشن رہنما شہباز شریف اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اجلاس میں موجود تھے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اپوزیشن ان متنازع بلز کی منظوری کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔

تاہم یہ پوچھنے پر کہ کیا انہیں حکومت کے اتحادیوں سے کوئی حمایت ملی ہے؟ نیئر بخاری نے سیدھا جواب دینے سے گریز کیا، اس کے بجائے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اتحادی شراکت دار ہمیشہ ایسے حالات کو سودے بازی اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

شاید وہ پہلے ہی جانتے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اتحادیوں نے حکومت کو دونوں بلز پر اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے،

تبصرے (0) بند ہیں