سانحہ مری: تحقیقات میں برف ہٹانے والی 20 گاڑیاں ایک ہی مقام پر کھڑے ہونے کا انکشاف

13 جنوری 2022
تحقیقاتی کمیٹی کے ارکان نے مری کا دورہ کیا جہاں انہوں نے آپریشنل عملے کے بیانات قلمبند کیے— فائل فوٹو: اے پی پی
تحقیقاتی کمیٹی کے ارکان نے مری کا دورہ کیا جہاں انہوں نے آپریشنل عملے کے بیانات قلمبند کیے— فائل فوٹو: اے پی پی

سانحہ مری کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے مری میں برفانی طوفان کے وقت برف ہٹانے والی 29 گاڑیوں میں سے 20 گاڑیاں ایک ہی پوائنٹ (سنی بینک) میں کھڑی تھیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان گاڑیوں کو چلانے کے لیے متعین ڈرائیورز اور دیگر عملہ بھی برفانی طوفان کے وقت ڈیوٹی پر نہیں تھے۔

عمومی طریقہ کار یہ ہے کہ جب بھی برفانی طوفان کا خطرہ ہوتا ہے تو برف صاف کرنے والی گاڑیوں کو شہر کی سڑکوں کے ساتھ ساتھ مختلف اہم مقامات پر تعینات کیا جاتا ہے تاکہ وہ برف کو جمع ہونے اور سڑک کو بلاک کرنے سے پہلے ہی صاف کر سکیں۔

تحقیقاتی کمیٹی کے ارکان نے بدھ کو مری کا دورہ کیا جہاں انہوں نے آپریشنل عملے کے بیانات قلمبند کیے اور کلڈنہ ۔ باڑیاں روڈ کا معائنہ کیا جہاں برف میں پھنس کر کم از کم 22 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مری میں برفباری میں پھنسے ایک ہی خاندان کے 8 افراد سمیت 22 سیاح جاں بحق

ضلعی انتظامیہ نے ہل سٹیشن پر سیاحوں کے داخلے پر پابندی بھی اٹھا لی اور پیٹرول اور کریانے کا سامان لے جانے والے ٹرکوں کو مری میں داخلے کی اجازت بھی دے دی گئی۔

ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ دس ویلر ٹرکوں کو رات 11 بجے کے بعد شہر میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی، ٹرک مالکان اور ڈرائیوروں کو بھی طے شدہ ایس او پیز پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔

انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ 17 جنوری سے 22 جنوری کے درمیان شدید موسم کے امکان کے پیش نظر تمام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔

تحقیقات میں سامنے آنے والے حقائق

ایک سینئر سرکاری اہلکار کے مطابق ’ابتدائی تحقیقات کے دوران پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ نے بتایا کہ ان کا راولپنڈی ڈسٹرکٹ میں دفتر موجود نہیں ہے۔‘

ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ ’شدید برف باری کی وارننگ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جاری کی گئی تھی، لیکن سرکاری ریکارڈ پر ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: ’مری میں اس سے بھی زیادہ برفباری ہوچکی ہے، بدانتظامی نے سانحے کو جنم دیا‘

اہلکار کا کہنا تھا کہ محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی کہ ہفتے کے آخر میں شدید برف باری ہوگی، تاہم مری میں تقریباً 30 سال کے عرصے کے بعد ایسا برفانی طوفان آیا جو درخت بھی اکھاڑ سکتا تھا۔

اہلکار کے مطابق برفانی طوفان اور معمول کی برف باری کے لیے ایس او پیز بالکل مختلف ہیں۔

جب کمیٹی نے برف ہٹانے والی گاڑیوں کے بارے میں پوچھا تو ہائی وے مکینیکل ڈیپارٹمنٹ کے حکام نے بتایا کہ 29 گاڑیوں میں سے 20 گاڑیاں سنی بینک میں کھڑی تھیں۔

ڈرائیوروں، یومیہ اجرت پر کام کرنےوالوں اور سڑکوں پر گرے ہوئے درختوں کو ہٹانے والے مزدوروں کے بارے میں سوال کیا گیا تو محکمہ جنگلات کے اہلکار تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے۔

کمیٹی نے عملے کی تفصیلات اور ان کی ذنمہ داریوں کی فہرست طلب کر لی ہے۔

کمیٹی نے برفانی طوفان کے دوران مدد کے لیے موصول ہونے والی کالز کے بارے میں ریسکیو 1122 کے اہلکاروں کے بیانات بھی قلمبند کیے۔

مزید پڑھیں: سانحہ مری: محکمہ موسمیات کے شدید برفباری کے انتباہ پر توجہ نہیں دی گئی

ضلعی انتظامیہ سے پہاڑی علاقے میں برف باری اور بارش سے نمٹنے کے لیے کیے گئے ہنگامی منصوبوں کی تفصیلات پیش کرنے کو بھی کہا گیا۔

کمیٹی کو فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 4 سے 8 جنوری تک ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں، ضلعی انتظامیہ نے مری کے داخلی راستوں اور سڑکوں سے تقریباً 50 ہزار گاڑیاں واپس بھیجیں۔

کمیٹی کے ارکان سیاحوں اور مقامی لوگوں کے بیانات بھی قلمبند کریں گے۔

کمیٹی میں محکمہ داخلہ پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری ظفر نصراللہ، سیکریٹری خوراک پنجاب علی سرفراز، سیکریٹری زراعت اسد گیلانی اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس فاروق مظہر شامل ہیں۔

سٹی ٹریفک افسر تیمور خان، اسسٹنٹ کمشنر محمد عمر مقبول اور دیگر اعلیٰ حکام بھی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں