بھارتی صحافتی تنظمیوں کی کشمیر پریس کلب پر قبضے کی مذمت

17 جنوری 2022
حکومت کی ایما پر کورونا لاک ڈاؤن کی آڑ میں قبضے کی اس کوشش کو میڈیا نمائندوں نے بغاوت قرار دیا ہے— فوٹو: شاہد تانترے/ٹوئٹر
حکومت کی ایما پر کورونا لاک ڈاؤن کی آڑ میں قبضے کی اس کوشش کو میڈیا نمائندوں نے بغاوت قرار دیا ہے— فوٹو: شاہد تانترے/ٹوئٹر

بھارتی صحافتی تنظمیوں نے سری نگر میں کشمیر پریس کلب پر صحافیوں کے ایک گروپ کی طرف سے زبردستی قبضے کی مذمت کی ہے جنہوں نے ہفتے کو مسلح پولیس کی نگرانی میں پریس کلب کے احاطے میں ایسے موقع پر حملہ کیا جب وہاں اگلے مہینے 15 فروری کو نئے انتخابات ہونے والے ہیں۔

قبضے کی یہ کوشش حکومت کی ایما پر کورونا لاک ڈاؤن کی آڑ میں ہوئی جسے میڈیا نمائندوں نے بغاوت قرار دیا ہے۔

دہلی یونین آف جرنلسٹس نے کہا کہ وہ کشمیر پریس کلب کو بند کرنے کے حکومتی اقدام پر مایوس ہے۔

یونین کے بیان میں کہا گیا ہے کہ حکام نے کئی مہینے تاخیر کے بعد کشمیر پریس کلب کے لائسنس کی 29 دسمبر کو تجدید کی تھی، تجدید کا نوٹس موصول ہونے کے بعد پریس کلب کے انتخابات کا اعلان تاخیر سے ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی کشمیر پریس کلب پر مبینہ قبضے اور صحافیوں کی گرفتاری کی مذمت

اب بظاہر ایک منفی انٹیلی جنس رپورٹ کی وجہ سے لائسنس کی تجدید کو اچانک منسوخ کر دیا گیا ہے۔

یونین نے کشمیر میں صحافیوں کی بلا روک ٹوک گرفتاریوں، نظر بندیوں اور پوچھ گچھ کی مذمت کی۔

5 جنوری کو ’کشمیر والا’ کے ایک تربیت یافتہ صحافی سجاد گل کو مبینہ طور پر حکومت مخالف جذبات کو ہوا دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

گزشتہ سال سلمان شاہ اور سہیل ڈار کو امن و امان کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

صحافی آصف سلطان 27 اگست 2018 سے جیل میں ہیں اور ٹرائل کا انتظار کر رہے ہیں۔

دہلی کے پریس کلب آف انڈیا نے بھی اس قبضے کی مذمت کی ہے۔

کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے سرکاری مشینری کے تعاون سے کچھ صحافیوں کے ذریعہ اس بغاوت پر صدمے کا اظہار کیا۔

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’ایسی کوئی حکومت نہیں ہے جس میں اس صحافی نے کام نہ کیا ہو اور کوئی ایسی حکومت نہیں ہے جس کی طرف سے اس نے جھوٹ نہ بولا ہو، مجھے معلوم ہے، میں نے دونوں اطراف کو بہت قریب سے دیکھا ہے، اب اسے ریاستی سرپرستی میں ہونے والی بغاوت سے فائدہ ہوا ہے۔‘

حقائق کی جانچ کرنے والے پورٹل ’نیوز لانڈری ڈاٹ کام‘ کے مطابق اس واقعے کی قیادت کرنے والے سلیم پنڈت جنوری 2020 میں ہندوستانی حکومت کی طرف سے کشمیر کے دورے پر آئے غیر ملکی سفارت کاروں سے ملنے کے لیے مدعو کیے جانے والے صحافیوں میں شامل تھے۔

دوپہر 1 بجکر 45 منٹ پر گروپ کے سربراہ صحافی سلیم پنڈت ایک بلٹ پروف امبیسڈر گاڑی، ایک اسکارپیو اور دیگر حفاظتی انتظامات کے ساتھ ہتھیاروں سے لیس جلوس کے ساتھ پہنچے تھے۔

ایک گھنٹے کے اندر پریس کلب کے آفیشل واٹس ایپ گروپ اور ای میل ایڈریس کے ذریعے ایک اعلان کیا گیا کہ ’جب تک انتخابات آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے نہیں ہو جاتے تب تک وادی کشمیر کی مختلف صحافتی تنظیموں نے متفقہ طور پر تین اراکین پر مشتمل ایک عبوری باڈی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ایم سلیم پنڈت صدر، دکن ہیرالڈ کے بیورو چیف ذوالفقار مجید جنرل سیکریٹری اور روزنامہ گڈیال کے ایڈیٹر ارشد رسول کلب کے خزانچی ہوں گے۔‘

مزید پڑھیں: صحافیوں کی عالمی تنظیم کا بھارت سے کشمیری صحافی کی رہائی کا مطالبہ

اعلان میں اس اقدام کی حمایت کرنے والی صحافتی تنظیموں کا نام نہیں بتایا گیا۔

نیوز لانڈری ڈاٹ کام نے آخری منتخب باڈی کے ایک رکن کے بیان کا حوالہ دیا جس نے پریس کلب پر قبضے کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات کے رک جانے سے تشبیہ دی ہے۔


یہ خبر 17 جنوری 2022 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں