وفاقی کابینہ کا درآمد شدہ گاڑیوں کی ترسیل میں تاخیر پر معذرت کا امکان

اپ ڈیٹ 18 جنوری 2022
گاڑیوں کی ترسیل میں تاخیر پر معذرت کا معاملہ کابینہ کے بعض اراکین کے تحفظات کے باعث زیر التوا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
گاڑیوں کی ترسیل میں تاخیر پر معذرت کا معاملہ کابینہ کے بعض اراکین کے تحفظات کے باعث زیر التوا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

وفاقی کابینہ کی جانب سے عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے درآمد کی جانے والی گاڑیوں کی ترسیل میں تاخیر پر معذرت کی توقع ہے جبکہ کابینہ، آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کے ذریعے ریگولیٹری اداروں کے کاموں کے آڈٹ پر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آج (منگل) وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوگا جس میں 14 نکاتی ایجنڈا زیر غور آئے گا، اجلاس میں وفاقی حکومت کے بزنس رول 1973 میں تبدیلی اور 'پاکستان سے باہر رہنے والے غیر ملکیوں کے لیے ایمنسٹی اسکیم پر غور کیا جائے گا'۔

ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ کابینہ، اے جی پی کو ملک کے درجنوں ریگولیٹرز کے ریگولیٹری فنکشنز آڈٹ کرنے کے بجائے وزارتی کمیٹی کی سفارش پر مختلف اقتصادی شعبوں کے ماہر ماہرین پر مشتمل ایک 'ریگولیٹری آڈٹ اوور سائیٹ بورڈ' بنانے کی اجازت دے سکتی ہے جس میں کابینہ ڈویژن اور پلاننگ کمیشن شامل ہوں گے۔

بحث یہ ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)، پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی)، مسابقتی کمیشن پاکستان، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) وغیرہ نے اعلیٰ ٹیکنکل اور خصوصی ٹیلی کام، گیس، تیل، بجلی، کارپوریٹ اور صحت سے متعلق معاملات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نیم عدالتی کردار ادا کیا۔

مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ کا اجلاس، 'حکومت ہر سال 10 ارب ڈالر کے قرضے واپس کر رہی ہے'

لہٰذا عام آڈیٹرز کے قواعد و ضوابط کی ایک تنگ تعریف پر توجہ دینے کے بجائے معاشی نظریے پر مبنی کسی بھی فورم کے ریگولیٹری فنکشنز کی جانچ کے لیے ان شعبوں سے متعلق زیادہ مہارت اور بہتر تفہیم ہونی چاہیے۔

پی ٹی آئی حکومت آئینی آڈٹ باڈی یعنی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے آڈٹ کردار اور صلاحیت پر بھی تنقید کرتی رہی ہے، لہٰذا پلاننگ کمیشن اور کابینہ ڈویژن کا خیال ہے کہ مختلف معاشی شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ایک نگران بورڈ تشکیل دیا جائے جو ریگولیٹرز کے فیصلوں اور تعین کا جائزہ لے۔

اے جی پی ریگولیٹرز کے ریگولیٹری کرداروں اور فنکشنز کا آڈٹ کرنے پر اصرار کر رہا ہے اور بعض پارلیمانی اداروں نے ایسے اقدامات کی حمایت بھی کی ہے۔

علاوہ ازیں دوسرے پارلیمانی پینلز نے معمول کی آڈٹ ٹیموں کو ریگولیٹرز کے کاموں کو دیکھنے کی اجازت دینے کی مخالفت کی تھی کیونکہ وہ خصوصی اور ٹیکنیکل نوعیت کے ہوتے ہیں اور آڈیٹرز کے ذریعے ان کی جانچ نہیں کی جا کتی تھی۔

ریگولیٹرز نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے کھاتوں کا بین الاقوامی شہرت کی چارٹرڈ اکاؤنٹنسی فرمز سے آڈٹ کیا گیا تھا اور ان کے مالیات کی جانچ بھی اے جی پی صرف اسی صورت میں کر سکتی ہے جب اے جی پی کے آڈیٹرز اپنے معاشی فیصلہ سازی اور ریگولیٹری کرداروں کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: کابینہ نے وفاقی محکموں میں افرادی قوت سے متعلق اصلاحات کی منظوری دے دی

ایسی ہی ایک حالیہ مثال میں لا ڈویژن نے اوگرا کے اس نقطہ نظر کی حمایت کی کہ اس کے ریگولیٹری فنکشنز جیسے تیل اور گیس کی قیمتوں کا تعین اور لائسنس جاری کرنا یا ختم کرنے کا آڈٹ اے جی پی سے نہیں کروایا جاسکتا۔

درآمدی گاڑیاں

باخبر ذرائع نے بتایا کہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے گزشتہ سال مئی میں وزارت تجارت کی سمری کی منظوری دی تھی جس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے درآمد کی جانے والی گاڑیوں کی درآمدی شرائط کی تعمیل کی وجہ سے ترسیل میں تاخیر پر معذرت کی گئی تھی۔

تاہم کابینہ کے بعض اراکین کے تحفظات کے باعث یہ معاملہ زیر التوا ہے۔

وزارت نے کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے درآمد کی جانے والی گاڑیوں کی کھیپ میں کچھ دن کی تاخیر پر معافی کا مطالبہ اس بنیاد پر کیا تھا کہ یہ گاڑیاں جہاز رانی کی رکاوٹوں کی وجہ سے پھنس گئی تھیں۔

درآمدی پالیسی کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانی ذاتی سامان، رہائش کی منتقلی اور گفٹ اسکیموں کے تحت تین سال پرانی کاریں اور دیگر پانچ سال پرانی گاڑیاں درآمد کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ میں ایک مرتبہ پھر ردو بدل، شوکت ترین وزیر خزانہ مقرر

کورونا سے متعلق شپنگ مسائل کی وجہ سے پاکستان کی بندرگاہوں پر پہنچنے تک ان گاڑیوں کی مدت چند روز کے فرق سے تین یا پانچ سال سے زائد ہوگئی، اطلاعات کے مطابق یہ گاڑیاں کراچی بندرگاہ پر کباڑ میں تبدیل ہوگئی ہیں۔

وزارت داخلہ کی درخواست پر 'مقررہ مدت سے زیادہ قیام کرنے والے غیر ملکیوں کو پاکستان سے باہر جانے کے لیے ایمنسٹی اسکیم' کی اجازت دینے اور نیپرا کی سالانہ رپورٹ 21-2020 اور اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ 2021 کی منظوری دینے کی بھی توقع ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں رپورٹس تقریباً چھ ماہ قبل شائع ہوئی تھیں اور نیپرا کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔

کابینہ فرسٹ ویمن بینک کو مالی سال 19-2018 اور 21-2020 کے قانونی آڈیٹرز کے ششماہی جائزے کی قانونی ضرورت سے مستثنیٰ کرنے اور 21-2020 کا آڈٹ کرنے کے لیے ’کے پی ایم جی‘ کو 6 سال کے لیے اکاؤنٹنگ فرم کے طور پر برقرار رکھنے پر غور کرے گی۔

اجلاس میں انسانی اسمگلنگ سے متعلق بین الاقوامی منظم جرائم کے پروٹوکول کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن میں پاکستان کی شمولیت کی منظوری اور ثقافتی اظہار کے تنوع کے تحفظ اور فروغ سے متعلق یونیسکو کے 2005 کے کنونشن کی توثیق متوقع ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کابینہ نے وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کی منظوری دے دی

وفاقی کابینہ کسان سپورٹ سروسز لمیٹڈ (زرعی ترقیاتی بینک کا ایک ذیلی ادارہ) کے سی ای او کے تقرر کی منظوری پر غور کرے گی، پاکستان ضروری خدمات (مینٹیننس) ایکٹ 1952 کے تحت ایک مجاز افسر کے نوٹیفکیشن اور منیجنگ ڈائریکٹر کے اضافی چارج پر غور کرے گی۔

اجلاس میں کورنگی فشریز ہاربر اتھارٹی نے ڈائریکٹر جنرل آف پورٹس اینڈ شپنگ کراچی کو اضافی چارج دیے جانے کا امکان ہے۔

کابینہ پاکستان ریلویز کے دو ذیلی اداروں ریلوے کنسٹرکشنز پاکستان لمیٹڈ اور فریٹ ٹرانسپورٹیشن کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل نو پر بھی غور کرے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں