بیانِ حلفی کا مقصد 'ریکارڈ کو درست رکھنا' تھا، رانا شمیم کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2022
درخواست میں مزید کہا گیا کہ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ حلف نامے میں درج حقائق کی تصدیق کرنی چاہیے —فائل فوٹو: ڈان نیوز
درخواست میں مزید کہا گیا کہ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ حلف نامے میں درج حقائق کی تصدیق کرنی چاہیے —فائل فوٹو: ڈان نیوز

گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے انکشاف کیا ہے کہ چھ ماہ قبل ان کی اہلیہ سمیت 5 قریبی رشتہ داروں کے انتقال کے بعد انہوں نے ریکارڈ درست رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے حلف نامہ لکھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) سے درخواست کی ہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار سے جوابی حلف نامہ طلب کرے۔

توہین عدالت کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں رانا شمیم نے حلف نامے میں لکھے گئے مواد کی تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ انہوں نے گزشتہ سال 10 نومبر کو حلف نامے پر دستخط کیے تھے اور اسے سیل لفافے میں رکھا تھا اور لفافہ اپنے نواسے کو دیا تھا جو اس وقت برطانیہ میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ پاک ۔ امریکن لائرز فار سول اور لیگل رائٹس کے منعقدہ سمپوزیم میں شرکت کرنے امریکا گئے تھے جہاں انہیں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'رانا شمیم بیان حلفی: ’نئے انکشافات نے شریف خاندان کو پھر سیسیلین مافیا ثابت کردیا‘

ان کا کہنا تھا کہ انہیں 17 نومبر کو واپس لوٹنا تھا لیکن 6 نومبر کو انہیں اپنے بھائی کے انتقال کی بُری خبر موصول ہوئی جس کے سبب وہ اپنا دورہ ختم کر کے 7 نومبر کو واپس پاکستان آنے کے لیے نکلا۔

رانا شمیم نے مزید کہا کہ اس وقت انہیں براہِ راست پاکستان کی پرواز نہیں مل سکی تھی لہٰذا وہ براستہ لندن پاکستان آئے تھے، وہ 8 نومبر کو لندن پہنچے اور لندن سے براستہ دبئی کراچی کی پرواز میں سوار ہوئے۔

درخواست کے مطابق گلگت بلتستان کے سابق چیف جج اپنے بھائی کی موت کی خبر ملنے سے پہلے ہی کافی جذباتی دباؤ کا شکار تھے۔

ان کے بھائی کی بیوی اگست 2021 میں انتقال کر گئی تھیں، ان کے چچا کا انتقال 5 جولائی 2021 کو ہوا، ان کی اہلیہ 4 جون کو جبکہ ان کی سالی 31 مارچ کو انتقال کر گئی تھیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ رانا شمیم 'اپنے خاندان کے اراکین کو کھونے کے دباؤ میں تھے، اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کے ذہن میں موجود واقعات کو جلد از جلد تحریر کردیا جائے، اپنی اہلیہ کی خواہش پر اور لندن میں ان کے قیام کے دوران انہوں نے یہ فیصلہ کیا'۔

رانا شمیم کا کہنا تھا کہ انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل میں 15 جولائی 2018 کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اس وقت اس مقدمے کے ایک فریق ثاقب نثار ہیں جو اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ تھے اور واقعے کے ایک ماہ بعد ریٹائرڈ ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: رانا شمیم کے بیانِ حلفی کی تحقیقات کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

انہوں نے مزید کہا کہ یہ واقعہ پاکستان سے باہر پیش آیا تھا۔

رانا محمد شمیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان کے خلاف الزامات عائد کرنے کے فیصلے کو عدل و انصاف کے تقاضوں کے مخالف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجرمانہ اقدام کے بنیادی اصول ثابت کیے بغیر ان پر توہین عدالت کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ 'یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ حلف نامے میں درج حقائق کی تصدیق تحقیقات کے ذریعے کرنی چاہیے‘۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کے حصول کے لیے یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا جوابی حلف نامہ بھی تحقیقات کے لیے پیش کیا جائے اور مدعا علیہ کو جرح کا موقع دیا جائے۔

رانا شمیم کی جانب سے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے تقرر کے خلاف ایک اور درخواست دائر کی گئی جس میں کہا گیا کہ ان کا رویہ کینہ پرور ظاہر ہوتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں