بلاگر کے قتل کی سازش: مڈل مین اور ملزم کے تعلقات سامنے آگئے

20 جنوری 2022
احمد وقاص گورایا—فائل فوٹو: ڈی ڈبلیو نیوز
احمد وقاص گورایا—فائل فوٹو: ڈی ڈبلیو نیوز

کنگسٹن-اپون-ٹیمز کراؤن کورٹ میں زیر سماعت قتل کی سازش کے مقدمے میں مدعا علیہ (گوہر خان) نے مؤقف اختیار کرتے ہوئے پاکستان میں مقیم مڈل مین کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں ثبوت پیش کردیا۔

مڈل مین نے مبینہ طور پر ہالینڈ میں مقیم بلاگر احمد وقاص گورایہ کو قتل کرنے کے لیے اس کی خدمات حاصل کی تھیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مقدمے کی سماعت کے پانچویں روز استغاثہ نے اپنے دلائل مکمل کرلیے اور مطلوبہ ہدف وقاص گورایا کی گواہی بھی پڑھی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: بلاگر کے قتل کی سازش میں رقم منتقلی کی تفصیلات منظرِ عام پر آگئیں

سماعت 31 سالہ مدعا علیہ محمد گوہر خان سے وکیل دفاع کی جرح کے کچھ ہی دیر بعد ملتوی کر دی گئی۔

گوہرخان نے کہا کہ وہ مڈل مین، مزمل (جس کی شناخت موبائل پیغامات میں مدز، زیڈ یا پاپا کے نام سے کی جاتی رہی) کو پاکستان میں اپنے اسکول کے دنوں سے ہی جانتا تھا۔

گزشتہ سماعتوں میں جیوری کو بتایا گیا تھا کہ کس طرح مزمل نے مبینہ طور پر سال 2021 میں گوہر خان کے لیے 80 ہزار پاؤنڈز اور خود اپنے لیے 20 ہزار پاؤنڈز کی پیشکش کے ساتھ رابطہ کیا تھا۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ مزمل کس کے لیے کام کر رہا تھا، لیکن اس بات کا ثبوت عدالت میں پیش کیا گیا ہے کہ 5 ہزار پاؤنڈ پاکستانی بینک اکاؤنٹ میں ادا کیے گئے اور لندن میں ہنڈی ٹرانسفر کے ذریعے وصول کیے گئے۔

اگرچہ گوہر خان کی پیدائش اور زیادہ تر پرورش برطانیہ میں ہوئی لیکن وہ 13 سال کی عمر میں اسکول جانے کے لیے لاہور چلے گئے اور شریف ایجوکیشن کمپلیکس میں بورڈنگ کے طالب علم کے طور پر رہتے تھے۔

مزید پڑھیں:بلاگر کے قتل کی سازش کیلئے رقم پاکستانی بینک اکاؤنٹ میں بھیجی گئی، برطانوی عدالت کو آگاہی

سال 2007 میں وہ فائنل امتحان دیے بغیر لندن واپس آگئے تھے کیونکہ انہیں اکثر اردو میں اسباق کے لیے مشکل پیش آتی تھی۔

کہا گیا کہ گوہر خان چھ بہن بھائیوں میں تیسرے سب سے چھوٹے ہیں اور یہ کہ ان کے والدین ستر کی دہائی میں پاکستان سے برطانیہ منتقل ہو گئےتھے۔

گوہر خان لندن میں پیدا ہوئے اور پے بڑھے اور اپنی پوری زندگی اپنے فاریسٹ گیٹ ایڈریس پر گزاری، وہ شادی شدہ ہونے کے ساتھ ساتھ 3 سے 11 سال تک کی عمر کے 6 بچوں کے والد ہیں۔

گوہر خان نے کہا کہ لندن واپسی پر وہ اپنے چچا کے ساتھ کام کرنے لگے تھے جو وائٹ چیپل میں ایک بازار کے اسٹال پر کام کرتے تھے اور وہاں وہ خواتین کے کپڑے اور لوازمات فروخت کرتے تھے۔

بعد ازاں وہ حج اور عمرہ پیکجوں میں مہارت رکھنے والی ٹریول ایجنسی کے لیے کام کرنے کے لیے دوسرے چچا کے ساتھ کام کرنے لگے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی ٹارگٹ کلر احمد وقاص گورایا کے گھر گیا، چاقو بھی خریدا، پروسیکیوشن کے دلائل

گوہر خان نے مزید کہا کہ کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے اپنے والد کے کاروبار، ورلڈ وائیڈ کارگو سروسز کے لیے کام کرنا شروع کر دیا جو کہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان سامان منتقل کرتا ہے۔

گوہر خان نے کہا کہ خاندانی کاروبار میں ان کی شمولیت نے اسے ترقی اور کامیابی دی۔

انہوں نے کہا کہ برطانیہ اور یورپ میں پی ٹی وی کے ساتھ اشتہارات کے علاوہ گوگل کے اشتہارات نے ان کے کام کو فروغ دیا لیکن بعد میں زوال کا شکار ہوگیا۔

جب وکیل دفاع نے پوچھا کہ انہیں مڈل مین مزمل کے بارے میں کیسے پتہ چلا اور انہیں پاپا کا لقب کیوں دیا گیا تو گوہر خان نے کہا کہ وہ ان سے اس وقت ملے جب وہ اسکول کی چھٹیوں میں لاہور میں اپنے خاندان کے گھر جاتے تھے۔

گوہر خان نے کہا کہ مزمل کو 'قد کی وجہ سے' پاپا کا لقب دیا گیا تھا جب کہ انہیں 'چھوٹے، گنجے اور موٹے' کہہ کر پکارا جاتا تھا، انہوں نے کہا کہ ان کا عرفی نام معروف کارٹون پاپا اسمرف کے پاپا اسمرف کے نام پر رکھا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:برطانوی عدالت میں 'جلاوطن بلاگر کے قتل کی منصوبہ بندی' کی تفصیلات کا انکشاف

برسوں بعد جب گوہر خان نے لندن سے باہر مال بھجوانے اور کارگو کا کاروبار چلایا تو وہ خراب کارکردگی پر فارغ کیے گئے ملازمین کی جگہ لاہور میں سامان کو سنبھالنے کے لیے مزمل کی خدمات حاصل کیں۔

گوہر خان نے کہا کہ وہ اپنے اسکول کے دنوں میں مزمل کو اچھی طرح سے نہیں جانتا تھا اور جب وہ اسکول کی تعطیلات کے دوران اپنے چچا کے گھر جاتا تھا اس وقت ہی مزمل سے ملاقات ہوتی تھی۔

پولیس کے ساتھ اپنے انٹرویوز میں، جو استغاثہ نے عدالت میں پڑھ کر سنایا، شروع میں گوہر خان نے کہا کہ سے مزمل کا آخری نام یاد نہیں لیکن بعد میں کہا کہ شاید وہ قمر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں