آر2 پی کا ذکر کرنے کے بعد وزیراعظم کی افغانستان کی مدد کے مطالبے پر وضاحت

24 جنوری 2022
وزیراعظم کی اپیل کے الفاظ پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر تنقید نے جنم لیا—تصویر: دفتر وزیراعظم
وزیراعظم کی اپیل کے الفاظ پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر تنقید نے جنم لیا—تصویر: دفتر وزیراعظم

وزیر اعظم عمران خان نے تحفظ کی ذمہ داری (آر2پی) کے بین الاقوامی نظریے کے تحت افغانستان کی مدد کے اپنے مطالبے پر نظرثانی کرتے ہوئے عالمی برادری کو دعوت دی کہ وہ ملک کو انسانی امداد فراہم کرکے افغان عوام کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا تھا کہ 'آر2 پی کا ایک جزو یہ ہے کہ ایک طویل جنگ کے نتیجے میں جنم لینے والے بڑے انسانی المیے سے لوگوں کو بچانے میں مدد کی جائے، فی الوقت کروڑوں افغان باشندے بھوک جیسے خطرے سے دوچار ہیں، ایسے میں انسانی بنیادوں پر (افغان عوام کو) امداد کی فراہمی عالمی برادری کے ذمے ہے'۔

اس سے قبل بھی ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ 'عالمی برادری کی جانب سےہنگامی طور پر بھوک و فاقہ کشی کےکنارے پر کھڑےکروڑوں افغانوں کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد درکار ہےجو کہ متفقہ طور پر اختیار کئےگئے اقوام متحدہ کے فراہمی تحفظ کے اصول (آر2پی) کے تحت یہ ہنگامی مدد فراہم کرنے کی پابند بھی ہے'۔

تاہم شاید دوسری ٹوئٹ میں ان کی اپیل کے الفاظ پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر تنقید نے جنم لیا جو افغانستان اور اس کی حکومت کے بارے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مؤقف کی نفی کرتی نظر آئی تھی۔

دفتر خارجہ کے سابق ترجمان عبدالباسط نے وزیراعظم کے جواب میں ٹوئٹ کیا کہ 'آر2پی کا افغانستان میں موجودہ انسانی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں ہے، جس نے بھی آر2پی کی یہ فضول اور خطرناک تشریخ پیش کی ہے اس کے خلاف کارروائی کریں'۔

گلوبل سینٹر فار آر2پی کے مطابق، یہ ایک بین الاقوامی اصول ہے جو 'اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ بین الاقوامی برادری نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف بڑے پیمانے پر جرائم جیسے مظالم کو روکنے میں دوبارہ ناکام نہ ہو۔'

یہ تصور '90 کی دہائی کے دوران روانڈا اور سابق یوگوسلاویہ میں بڑے پیمانے پر ہوئے مظالم کا مناسب جواب دینے میں بین الاقوامی برادری کی ناکامی' کے ردعمل میں سامنے آیا تھا۔

ان پیشگی شرائط کی نشاندہی تجزیہ کار مشرف زیدی نے بھی کی اور ٹوئٹ کیا 'جب تک کوئی یہ بحث نہ کرے کہ ان میں سے ایک یا زیادہ شرائط افغانستان میں رائج ہیں، کوئی آر2پی نہیں ہوتا'۔

یہ بات قابل غور ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بین الاقوامی برادری کو افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ رابطہ کرنے کی ضرورت کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ جنگ زدہ ملک کے لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا یہی واحد طریقہ ہے۔

آر 2 پی کے معاملے پر پاکستان کے اصولی مؤقف کو دہراتے ہوئے ماہرِ قانون فیصل نقوی نے اپنی ٹوئٹ میں نشاندہی کی کہ پاکستان 'آر2 پی کے تعمیری تصور کا مخالف تھا کیونکہ اسے اکثر طاقتور ریاستیں مداخلت کے لیے غلط طریقے سے استعمال کرتی ہیں، مثال کے طور پر بھارت نے آر2پی کا استعمال اس وقت کے مشرقی پاکستان پر 1971 کے حملے کو جواز فراہم کرنے کے لیے کیا۔'

ڈان نے اس معاملے پر حکومت کا نقطہ نظر حاصل کرنے کے لیے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف سے رابطہ کیا لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

اتوار کو ایک اور پیغام میں وزیر اعظم نے ہیش ٹیگ #SaveAfghanLives کا استعمال کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا: 'میں افغانستان میں ظہور پذیر انسانی المیے، جس کےسبب کروڑوں افغان باشندے خصوصاً بچےبھوک کے خطرے سےدوچار ہیں کےحوالے سےبیداری شعور کی ایک عالمی تحریک کی آواز میں آواز ملاؤں گا اور چاہتا ہوں کہ لوگ بھی اس کے ہم آواز بنیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں