میڈیا میں بھی خواتین کو صنفی تفریق کا سامنا

26 جنوری 2022
خواتین صحافیوں کے ساتھ ذو معنی جملوں میں بھی بات کی جاتی ہے—فوٹو: شیما صدیقی/ فہمیدہ یوسفی
خواتین صحافیوں کے ساتھ ذو معنی جملوں میں بھی بات کی جاتی ہے—فوٹو: شیما صدیقی/ فہمیدہ یوسفی

پاکستان میں گزشتہ چند سال کے دوران میڈیا انڈسٹری میں خواتین صحافیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جب کہ اب خواتین ڈیجیٹل کانٹینٹ کریئٹر کے طور پر بھی خود کو منوا رہی ہیں۔

ایک طرف جہاں میڈیا انڈسٹری میں خواتین کی تعداد بڑھتی دکھائی دے رہی ہے، وہیں تاحال دیگر شعبوں کی طرح اس میں بھی خواتین کو ’صنفی امتیاز‘ کا سامنا ہے۔

میڈیا انڈسٹری میں کام کرنے والی خواتین یہ شکایت بھی کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ جہاں انہیں عورت ہونے کے ناطے کرائم، کورٹ، دفاع، سیکیورٹی اور سیاسی موضوعات کی خبروں پر کام کرنے نہیں دیا جاتا، وہیں وہ اپنے ساتھی مرد صحافیوں کے مقابلے کم تنخواہیں دینے کی شکایات بھی کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں صحافیوں پر تشدد کا خاتمہ کیسے ممکن؟

خواتین کے خدشات اور دعوے اپنی جگہ لیکن میڈیا منیجرز اور نیوز ایڈیٹرز کا ماننا ہے کہ اگر کسی خاتون رپورٹر کو کسی کرائم رپورٹ پر کام کرنے نہیں دیا جاتا تو اس کا سبب ان کی صنف نہیں بلکہ ان کی سیکیورٹی ہوتی ہے، کیوں کہ پاکستانی سماج میں چاہے خاتون پولیس والی ہو یا صحافی اسے بھیڑ میں بھیجنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔

میڈیا منیجرز کے مطابق اگر کسی خاتون کو کسی احتجاج، کسی سیاسی جلسے، کسی کرائم کی رپورٹ پر کام کرنے کو نہیں کہا جاتا تو اس کا سبب ان کے ساتھ تفریق نہیں بلکہ ان کی سیکیورٹی ہوتی ہے اور انہیں ممکنہ حائل خطرات کی وجہ سے ایسی ذمہ داری نہیں سونپی جاتی۔

تاہم بعض منیجرز اور نیوز ایڈیٹرز تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ اداروں میں صنفی تفریق کا رجحان پایا جاتا ہے اور خواتین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں