افغانستان کی امداد کیلئے پاکستان کا عالمی برادری پر زور

28 جنوری 2022
منیر اکرم سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے — فوٹو: پی آئی ڈی
منیر اکرم سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے — فوٹو: پی آئی ڈی

پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان کے لیے 3.6 ارب ڈالر امداد کی اپیل کا مثبت اور فراخدلی سے جواب دیا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اقوام متحدہ کی ٹیم کی جانب سے ٹرانزیشنل انگیجمنٹ فریم ورک (ٹی ای ایف) لانچ کیا گیا ہے جو کہ سال 2022 کے دوران زندگیوں کو محفوظ بنانے اور صحت، تعلیم اور دیگر ضروری خدمات کو برقرار رکھنے کے لیے 3.6 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے کہا کہ ہمیں امید اور یقین ہے کہ عالمی برادری اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی ہمدردی اور پناہ گزینوں کے لیے امداد کی اپیلوں کا مثبت اور فراخدلی سے جواب دے گی۔

سیکریٹری جنرل انتونیو گورتیرس نے اس ماہ افغانستان کے لیے دو اپیلیں کیں، پہلی 11 جنوری کو ہنگامی امداد کے لیے 5 ارب ڈالر اور پھر بدھ کو 3.6 ارب ڈالر کی اپیل کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: مغرب نے افغانستان کیلئے امداد، بنیادی حقوق کی فراہمی سے مشروط کردی

اقوام متحدہ کے سربراہ نے اپنی دوسری اپیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے لوگوں کے لیے روزمرہ کی زندگی ایک جہنم بن چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اخلاقی ذمہ داری کے طور پر اور علاقائی اور عالمی سلامتی اور خوشحالی کے پیش نظر ہم انہیں تنہا نہیں چھوڑ سکتے، انہیں امن کی ضرورت ہے، انہیں امید اور مدد کی ضرورت ہے اور یہ انہیں ابھی اسی وقت چاہیے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بریفنگ کے دوران دوسری اپیل سے متعلق بات کرتے ہوئے منیر اکرم نے خبردار کیا کہ بھوک سے ستائے لاکھوں افغان مرد، خواتین اور بچے سخت سردی میں موت سے بچنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال حالیہ کشیدگی، خشک سالی، بیرونی امداد پر انحصار اور ضبط شدہ اثاثوں کا مجموعی نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ امداد کی عدم فراہمی سے افغانستان میں نئے سرے سے افراتفری اور کشیدگی دوبارہ پیدا ہوسکتی ہے جو پناہ گزینوں کے اخراج اور دہشت گردی کے خطرے میں اضافے کا سبب بھی بنے گی۔

سیکریٹری جنرل نے کونسل کو یہ بھی یاد دلایا کہ افغانستان میں شدید سردی اور ملک کے منجمد اثاثے ایک جان لیوا جوڑ ہے، جبکہ طالبان کے قبضے کے چھ ماہ بعد بھی افغانستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان نے اوسلو مذاکرات کو ’اپنے آپ میں ایک کامیابی‘ قرار دے دیا

اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ افغانستان کو طویل عرصے سے سیاسی ایجنڈوں، جغرافیائی سیاسی فائدے، نظریاتی غلبے، وحشیانہ تنازعات اور دہشت گردی کے پلیٹ فارم کے طور پر غیر منصفانہ طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ضرروت یہ ہے کہ عالمی برادری اور یہ کونسل ترقی کے عمل میں اپنا کردار ادا کرے، وسائل مہیا کرے اور افغانستان کے حالات مزید بگڑنے سے روکے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کی سربراہ و نمائندہ خصوصی ڈیبورا لیونس نے کونسل کو بتایا کہ یہ سرمایہ کاری افغانستان میں غربت میں مسلسل اضافے کو روک سکتی ہے، تاہم اس کے ساتھ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ عطیہ دہندگان کے فنڈز کا غلط استعمال نہ ہو۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ طالبان بین الاقوامی برادری کے ساتھ مستقبل میں شمولیت جاری رکھنے کے لیے ایک راہ طے کرنے کے عزم کا مظاہرہ کریں گے کیونکہ اس سے عطیہ دہندگان کے تحفطات کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس راہ سے میری مراد واضح اور باہمی طور پر طے کیے جانے والے وعدوں کا ایک سلسلہ ہے جس میں ترجیح انسانی حقوق ہیں، اس کے نتیجے میں افغانستان اقوام کی عالمی برادری میں دوبارہ شامل ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان اور مغربی ممالک کے درمیان تین روزہ مذاکرات کا آغاز

ڈیبورا لیونس نے طالبان حکمرانوں پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی جدید تاریخ، اس کی آبادی کی امنگوں، اس کے متنوع کردار اور اس کی روایتی اسلامی شناخت سے ہم آہنگ ایک جائز اور قابل عمل راستہ طے کریں۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے بھی افغان نمائندے کا ساتھ دیتے ہوئے طالبان سے کہا کہ وہ عالمی برادری کا حصہ بننے کے لیے حقیقی عزم کا مظاہرہ کریں، ان کے لیے اعتماد کی بحالی کا راستہ کھلا ہے، لیکن یہ اعتماد بحال کرنے کے لیے انہیں جدوجہد کرنا ہوگی۔

پاکستانی سفیر منیر اکرم کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل نے دو افغان شہریوں کی بات بھی سنی اور کہا کہ اگر ہمیں افغانستان کی عبوری حکومت کے کسی نمائندے کو بھی سننے کا موقع ملتا تو یہ گفتگو زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حالیہ قرارداد اس مفاہمت کی تصدیق اور وضاحت کرچکی ہے کہ افغانستان میں بعض افراد اور اداروں کے خلاف ٹارگٹڈ پابندیوں کو افغانستان کے لیے انسانی، اقتصادی، یا ترقیاتی امداد کا راستہ نہیں روکنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان امید کرتا ہے کہ اب افغانستان میں کسی مخالفت یا من مانی پابندیوں کے خوف کے بغیر امدادی کارروائیاں جاری رکھنا ممکن ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں