طالبان نے اوسلو مذاکرات کو ’اپنے آپ میں ایک کامیابی‘ قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 25 جنوری 2022
یہ ملاقات اوسلو کے باہر برفانی پہاڑی کی چوٹی پر واقع سوریا موریا ہوٹل میں ہوئی — فوٹو: اے پی
یہ ملاقات اوسلو کے باہر برفانی پہاڑی کی چوٹی پر واقع سوریا موریا ہوٹل میں ہوئی — فوٹو: اے پی

افغانستان میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد یورپ کے اپنے پہلے دورے پر طالبان نے اوسلو میں مغربی سفارت کاروں کے ساتھ افغانستان میں انسانی بحران پر تاریخی گفتگو کی اور طالبان حکومت کے وفد نے اس ملاقات کو ’اپنے آپ میں ایک کامیابی‘ قرار دیا۔

تاہم بین الاقوامی برادری نے اصرار کیا ہے کہ امداد کی بحالی سے پہلے طالبان کو افغانستان میں انسانی حقوق کا احترام کرنا چاہیے جہاں بھوک کی شکار نصف سے زائد آبادی خطرے میں ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ناروے کی جانب سے متنازع دعوت قبول کرنے کے بعد طالبان نے امریکا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، یورپی یونین اور ناروے کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کیے۔

یہ بھی پڑھیں: امداد کے حصول کیلئے مذاکرات، طالبان وفد کی اوسلو آمد متوقع ہے، ناروے

یہ ملاقات اوسلو کے باہر برفانی پہاڑی کی چوٹی پر واقع سوریا موریا ہوٹل میں ہوئی، طالبان وفد کی قیادت وزیر خارجہ امیر خان متقی کر رہے تھے جنہوں نے اس حقیقت کو سراہا کہ یہ ملاقات اپنے طور پر ایک کامیابی ہے۔

امیر خان متقی نے صحافیوں کو بتایا کہ ناروے کی جانب سے ہمیں یہ موقع فراہم کیا جانا اپنے آپ میں ایک کامیابی ہے کیونکہ ہم وہاں دنیا کے ساتھ ایک اسٹیج پر موجود تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان ملاقاتوں سے ہمیں یقین ہے کہ افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون فراہم کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: افغان طالبان اور مغربی ممالک کے درمیان تین روزہ مذاکرات کا آغاز

افغانستان کی انسانی صورتحال گزشتہ اگست کے بعد سے بہت زیادہ ابتر ہو گئی ہے جب طالبان نے 20 سال بعد اقتدار دوبارہ سنبھالا، بین الاقوامی امداد اچانک رک گئی، شدید خشک سالی کے سبب پہلے ہی بھوک کا شکار لاکھوں لوگوں کی حالت زار مزید ابتر ہوگئی۔

افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے اتوار کے روز ٹوئٹ کیا کہ ’جیسا کہ ہم اتحادیوں، شراکت داروں اور امدادی اداروں کے ساتھ مل کر انسانی بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، لہٰذا ہم طالبان کے ساتھ اپنے خدشات اور ایک مستحکم، حقوق کا احترام کرنے والے اور جامع حکومت والے افغانستان کے لیے اپنی مستقل دلچسپی کے تحت واضح سفارت کاری جاری رکھیں گے۔‘

ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے، امید کی جارہی ہے کہ اس قسم کی ملاقاتوں سے طالبان حکومت کو قانونی حیثیت ملنے میں مدد ملے گی۔

ناروے کے وزیر خارجہ اینکن ہوٹفیلٹ نے واضح کیا ہے کہ یہ مذاکرات طالبان کو قانونی حیثیت دینے یا تسلیم کرنے کی علامت نہیں ہیں، لیکن انسانی بحران کی صورتحال کی وجہ سے ہمیں افغانستان کی موجودہ بااختیار حکومت سے لازمی بات کرنی چاہیے۔

ماہرین اور افغانستان کے تارکین وطن باشندوں نے طالبان کے لیے ناروے کی دعوت پر تنقید کی ہے اور ناروے کے دارالحکومت میں وزارت خارجہ کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے والی خواتین پر طالبان کا سیاہ مرچ کا اسپرے

طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کابل میں باقاعدگی سے احتجاج کرنے والی ایک کارکن وحیدہ امیری نے کہا کہ انہیں ناروے جیسے ملک کی جانب سے اس سربراہی اجلاس کے انعقاد، دہشت گردوں کے ساتھ بیٹھنے اور معاہدہ کرنے پر افسوس ہے۔

افغانستان کا 80 فیصد بجٹ بین الاقوامی امداد پر محیط تھا جو کہ اگست سے معطل کی جاچکی ہے اور امریکس نے افغان مرکزی بینک کے 9.5 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں، ملک میں بے روزگاری آسمان کو چھو رہی ہے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں مہینوں سے ادا نہیں کی گئیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق بھوک سے 2 کروڑ 30 لاکھ افغانوں یا 55 فیصد آبادی کو خطرہ لاحق ہے، اس بحران سے نمٹنے کے لیے اسے اس سال افغانستان کو ڈونر ممالک سے 4.4 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

تاہم بین الاقوامی برادری اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ طالبان 1996 اور 2001 کے درمیان اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران انسانی حقوق کو پامال کرنے کے الزامات کے پیش نظر اس بار کس انداز میں حکومت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان: خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں، طالبان

طالبان کی جانب سے جدت پسند ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، لیکن خواتین اب بھی بڑی حد تک سرکاری شعبے کی ملازمتوں سے محروم ہیں اور لڑکیوں کے زیادہ تر سیکنڈری اسکول بند ہیں، کابل میں گزشتہ ہفتے 2 خواتین کارکن لاپتہ ہو گئی تھیں، طالبان نے واقعے کی ذمہ داری لینے سے انکار کیا ہے۔

طالبان کے ساتھ ملاقات سے پہلے مغربی سفارت کاروں نے خواتین کارکنان اور صحافیوں پر مشتمل افغانستان کی سول سوسائٹی کے ارکان کے ساتھ بات چیت کی، جنہوں نے خود ایک دن پہلے انسانی حقوق سے متعلق طالبان کے ساتھ گفتگو کی تھی۔

ارکان میں شامل خواتین کے حقوق کی ایک کارکن جمیلہ افغانی نے کہا کہ یہ ایک مثبت ملاقات تھی جہاں طالبان نے خیر سگالی کا مظاہرہ کیا، لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان کے اقدامات کیا ہوں گے۔

اوسلو مذاکرات میں حصہ لینے والی ایک اور خاتون کارکن محبوبہ سراج نے صحافیوں کو بتایا کہ طالبان نے ہمیں تسلیم کیا اور انہوں نے ہماری بات سنی، میں پرامید ہوں اور ایک دوسرے کے بارے میں کسی حد تک اتفاق رائے کی امید کر رہی ہوں۔


یہ خبر 25 جنوری 2022 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں