ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے میڈیا کو تنبیہ کردی ہے کہ اگر ملکی اقدار کو نقصان پہنچانے والا مواد شائع کیا گیا تو قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق آفیشل گزٹ میں شائع نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ترکی کی قومی ثقافت اور بچوں کی تربیت کے تحفظ کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے، جو تحریری، زبانی اور تصویری تمام ذرائع ابلاغ پر نقصان دہ مواد سے متاثر ہو رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی میں سوشل میڈیا پر حکومتی کنٹرول بڑھانے کے قوانین نافذ

ترک صدر نے میڈیا کے مواد کی وضاحت نہیں کی لیکن کہا کہ میڈیا کے ذریعے ہونے والی 'ظاہری یا خفیہ سرگرمیوں' کے خلاف قانونی اقدامات کیے جائیں گے کیونکہ یہ سرگرمیاں ترکی کے قومی تشخص، خاندانی اور سماجی اسٹرکچر کو متاثر کر رہی ہیں۔

رجب طیب اردوان تقریباً 20 برس سے حکومت میں ہیں اور ماضی میں بھی میڈیا کے مواد پر تنقید کرتے رہے ہیں جو ان کی جماعت اے کے پارٹی کے منشور کے خلاف ہوتا ہے۔

ترکی میں میڈیا پر سختی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں جہاں رپورٹس کے مطابق تقریباً 90 فیصد مرکزی میڈیا ریاستی انتظام میں چل رہا ہے یا حکومت نے متعدد اداروں کو بند کردیا ہے۔

ترکی کے مغربی اتحادی اور ناقدین کا کہنا ہے کہ اردوان 2016 کی ناکام بغاوت کو سماجی حقوق مسخ کرنے اور عدم برداشت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ترک حکومت ان الزامات کو مسترد کررہی ہے اور مؤقف ہے کہ ترکی کو درپیش خطرات کے باعث اقدامات ضروری ہیں اور سیکولر معاشرے میں مذہبی آزادی اظہار بحال کرنا بھی ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ترک پارلیمنٹ سے سوشل میڈیا پر کنٹرول بڑھانے سے متعلق متنازع بل منظور

آر ٹی یوکے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نظر رکھنے والا ادارہ ہے جو آن لائن سامنے آنے والے مواد پر نظر رکھتا ہے اور اس کے پاس مواد ہٹانے کا اختیار بھی ہے۔

مذکورہ ادارے کی جانب سے ترک اقدار کی خلاف ورزی کی فوٹیجز پر ٹی وی اسٹیشنز پر جرمانہ کیا جاتا ہے جیسا کہ جو ویڈیو اس کی نظر میں ہم جنس پرستی سے متعلق ہوں یا صدر کو بدنام کرنے والا مواد شامل ہو۔

اس قانون کے تحت متعدد افراد کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جاچکی ہے اور ایک مشہور صحافی کو گزشتہ ہفتے جیل بھیج دیا گیا ہے، جن پر الزام تھا کہ ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اردوان کی رہائش گاہ کے بارے میں نامناسب الفاظ پر مشتمل پوسٹ کی تھی اور اس مواد کو مخالف ٹی وی چینل پر بھی دہرایا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں