گرین لائن اسٹیشنز کے ایسکیلیٹرز اور لفٹ غیر فعال، شہریوں کو مشکلات کا سامنا

اپ ڈیٹ 07 فروری 2022
حکام کا کہنا ہے کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ایسکیلیٹرز کے متعدد حصے چوری ہوگئے ہیں— فائل فوٹو: وائٹ اسٹار
حکام کا کہنا ہے کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ایسکیلیٹرز کے متعدد حصے چوری ہوگئے ہیں— فائل فوٹو: وائٹ اسٹار

کراچی میں گرین بس سروس شروع ہوئے تقریباً ایک ماہ ہونے لگا اور یہ شہریوں میں خاصی مقبول بھی ہے لیکن متعدد افراد، خاص طور پر بزرگوں کی شکایت ہے کہ زیادہ تر خودکار سیڑھیاں (ایسکلیٹرز) اور لفٹ ناکارہ ہیں یا انتظامیہ کی جانب سے 22 بس اسٹیشنز میں سے متعدد میں انہیں بند کردیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تبسم شبیر نے حیدری بس اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے سیڑھیوں کی قطار کو دیکھا اور گہری سانس لی، وہ ہر 5 سے 6 زینے چڑھنے کے بعد کچھ دیر رک رہی تھیں۔

تبسم شبیر کا کہنا تھا کہ میں نے وردی میں موجود شخص سے کہا تھا کہ خودکار سیڑھیاں چلادیں، انہوں ان سیڑھیوں کو جان بوجھ کر بند رکھا ہوا ہے، انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں چلانا بچوں کو مدعو کرنے کے مترادف ہوگا، بچے اس سے اوپر اور نیچے آتے جاتے رہیں گے۔

مزید پڑھیں: کراچی گرین لائن بس منصوبے کی خصوصیات کیا ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے بھی شاپنگ مال میں دیکھا ہے کہ بچے خودکار سیڑھیوں پر اسی طرح کرتے ہیں لیکن وہاں انہیں بند نہیں کیا جاتا جبکہ یہاں لفٹ بھی موجود ہے، سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہاں کیا مسئلہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں گھٹنوں کی تکلیف کا شکار ہوں بلکہ مجھ سے جوان خواتین کو بھی گھٹنوں کے درد کی شکایت ہوتی ہے، اگر گرین لائن انتظامیہ ہمارے جیسے لوگوں کے لیے اپنے دل بڑے کرے تو ہم بہت حوصلہ افزائی کریں گے‘۔

بورڈ آفس اسٹیشن پر موجود اپنی بیٹی سے ملاقات کے لیے اس کے گھر آنے والی برنس روڈ کی رہائشی حمیدہ بی بی کا کہنا تھا کہ یہاں خودکار سیڑھیوں تک پہنچنے کے لیے سیمنٹ سے بنی ہوئی سیڑھیاں موجود ہیں اور اس کے دونوں اطراف ریل بھی موجود نہیں ہے، جبکہ ایسکیلیٹرز بھی بند کردیے گئے ہیں۔

حمیدہ بی بی نے مزید کہا کہ انہوں نے ان اسٹیشنز پر کبھی ایسکیلیٹر کو چلتے ہوئے نہیں دیکھا۔

یہ بھی پڑھیں: جدید شہر بنانے کیلئے کراچی کا مینجمنٹ سسٹم ٹھیک کرنا ہوگا، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ ’مجھے بتایا گیا کہ یہ ناکارہ ہیں، لیکن بس سروس نئی ہے اور یہ ایسکیلیٹرز بھی نئے ہیں، انہیں کبھی بھی استعمال نہیں کیا گیا‘۔

علاقے کے رہائشی منور عادل نے بھی خواتین کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے بورڈ آفس اسٹیشن پر ان سیڑھیوں کو کبھی چلتے ہوئے نہیں دیکھا‘۔

مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اسٹیشن کے داخلی راستے پر نصب کیے گئے نوٹس بورڈ پر ایسکیلیٹرز اور عام سیڑھیوں کے اشارے دکھائے گئے ہیں، لیکن بورڈ آفس پر واقع اس اسٹیشن میں یہ سہولت بند کردی گئی ہے۔

شہزادہ ہمایوں نے ابتدائی طور پر گرین بس میں سفر کرنے کی کوشش کی لیکن وہ مسائل کی وجہ سے ہار مان چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’حالانکہ صاف اور خوبصورت گرین لائن بس کے ذریعے عوام کو سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اور اس میں معذور افراد کے بیٹھنے کے لیے علیحدہ جگہ بھی موجود ہے، لیکن حکام کی جانب سے انہیں بس میں نہیں بٹھایا جارہا ہے، جبکہ ایسکیلیٹر اور لفٹ بھی بند کردی گئی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: گرین لائن منصوبے کیلئے 40 بسوں کی پہلی کھیپ کراچی پہنچ گئی

ان کا کہنا تھا کہ شاید ایسا دیگر اسٹیشنز پر بھی ہو سکتا ہے، لیکن مسافروں کو یہ کس طرح معلوم ہوگا کہ کہاں ایسکیلیٹرز چل رہے ہیں اور کہاں بند ہیں۔

شہزادہ ہمایوں نے کہا کہ میرا بائیاں پاؤں زخمی ہے لیکن اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ میں گھر میں بیٹھ جاؤں، اس طرح کے رویے کے بعد مجھے گھر بیٹھ جانا چاہیے۔

ڈان کے رابطہ کرنے پر سندھ انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے سینئر منیجر عبدالعزیز نے بتایا کہ اسٹیشن پر تین سال قبل لفٹ اور خودکار سیڑھیاں نصب کی گئی تھیں، اس وقت سندھ حکومت نے بسیں بھی نہیں خریدی تھیں، تاہم اس میں اب دھول مٹی بھر چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دھول مٹی اور تین سال تک استعمال نہ ہونے کے باعث ایسکیلیٹرز اور لفٹ غیر فعال ہوگئی ہیں، لیکن ہم نے ان میں سے زیادہ تر کو دوبارہ چلا دیا ہے۔

گرین لائن بس اسٹیشن کا سازو سامان چوری

عبدالعزیز نے دعویٰ کیا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ایسکیلیٹرز کے متعدد حصے چوری ہوگئے ہیں، کچھ لوگ ایسکیلیٹرز کے پورے پورے اسٹیپس اٹھا کر لے گئے، ہم نے چوری شدہ حصوں کی جگہ دوسرے حصے لگا دیے ہیں لیکن یہ بھی ہمارے لیے مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے کچھ ایسکیلیٹرز اور لفٹوں کی مرمت جاری ہے، ہم نے کچھ عرصے کے لیے ایسکیلیٹرز بند کیے ہوئے ہیں لیکن یہ ہمیشہ بند نہیں رہیں گے، مرمت کی وجہ سے انہیں کچھ عرصے کے لیے بند کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں