برطانیہ سے ورچوئلی بطور سینیٹر حلف اٹھانے کیلئے تیار ہوں، اسحٰق ڈار

خط میں اسحٰق ڈار نے چیئرمین سینیٹ سے آئین کے آرٹیکل 255 کی ذیلی شق 2 کے تحت حلف لینے کی استدعا کی ہے — فائل فوٹو: ٹوئٹر
خط میں اسحٰق ڈار نے چیئرمین سینیٹ سے آئین کے آرٹیکل 255 کی ذیلی شق 2 کے تحت حلف لینے کی استدعا کی ہے — فائل فوٹو: ٹوئٹر

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو خط لکھ کر برطانیہ سے ورچوئلی سینیٹ کی نشست کا حلف اٹھانے پر رضامندی ظاہر کردی۔

سابق وزیر خزانہ نے صادق سنجرانی کو خط میں لکھا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 255 (2) کے تحت فراہم کردہ طریقہ کار کے ذریعے سینیٹ کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے لیے تیار ہیں کیونکہ آئین کے مطابق وہ طویل علالت اور جاری طبی علاج کی وجہ سے پاکستان نہیں آسکتے۔

2 فروری کو لکھے گئے خط میں اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ وہ 3 مارچ 2018 کو ہونے والے انتخابات میں ٹیکنوکریٹ سیٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے، اس کے فوری بعد ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ان کی جیت کا اعلان کیا تھا۔

خط میں سابق وزیر خزانہ کا مؤقف ہے کہ سینیٹ کی نشست پر ان کے انتخاب کو چیلنج کرنے سے پیدا ہونے والا قانونی تنازع حل ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسحٰق ڈار کی نااہلی: الیکشن کمیشن میں ریفرنس سماعت کیلئے مقرر

اسحٰق ڈار نے کہا کہ 21 دسمبر 2021 کو سپریم کورٹ نے سول اپیل مسترد کر دی، جس کے بعد عدالت عظمیٰ کا 8 مئی 2018 کا رکنیت کی معطلی کا حکم نامہ ختم ہوگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے 10 جنوری 2022 کو میری سینیٹ نشست پر کامیابی کو معطل کرنے کا نوٹی فکیشن واپس لے لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانونی رکاوٹیں دور ہونے کے بعد بطور منتخب سینیٹر حلف اٹھانے کے لیے تیار ہوں، برطانیہ میں زیر علاج ہونے کے سبب فی الحال ذاتی طور پر آنے سے قاصر ہوں لہٰذا ورچوئل/ویڈیو لنک کے ذریعے حلف لیا جائے۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ طریقہ سپریم کورٹ میں پہلے ہی رائج ہے، اگر ورچوئل طریقہ اختیار کرنا ممکن نہ ہو تو چیئرمین سینیٹ آئین کے آرٹیکل 255 کے تحت برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر یا کسی مجاز شخص کے ذریعے حلف لینے کا انتظام کریں۔

مزید پڑھیں: ای سی پی نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحٰق ڈار کی سینیٹ کی رکنیت بحال کردی

خط میں اسحٰق ڈار نے چیئرمین سینیٹ سے آئین کے آرٹیکل 255 کی ذیلی شق 2 کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے مطابق ان سے حلف لینے کی استدعا کی۔

مذکورہ آئینی شق کے تحت چیئرمین سینیٹ کسی شخص کو منتخب رکن سے حلف لینے کے لیے مقرر کر سکتے ہیں جو آئین کے آرٹیکل 255 کے تحت منتخب رکن سے حلف لینے کا مجاز ہو۔

آرٹیکل کے مطابق ’جہاں آئین کے تحت ایک مخصوص شخص کے سامنے حلف اٹھانا ضروری ہے اور کسی بھی وجہ سے (امیدوار کے لیے) اس شخص کے سامنے حلف اٹھانا ممکن نہ ہو تو یہ حلف ایسے کسی دوسرے شخص کے سامنے اٹھایا جاسکتا ہے جسے اس شخص کی طرف سے نامزد کیا گیا ہو‘۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: اسحٰق ڈار کی سینیٹ رکنیت عبوری طور پر معطل

اسحٰق ڈار نے خط میں واضح کیا کہ ایک متعین مدت میں بطور رکن پارلیمنٹ حلف لینے کے حوالے سے 2021 میں کی گئی قانونی ترمیم ان کے 3 مارچ 2018 کو ہونے والے انتخاب پر لاگو نہیں ہوتی۔

2021 میں ترمیم کے بعد نافذ شدہ صدارتی آرڈیننس کے تحت سینیٹرز کے لیے سینیٹ کے پہلے اجلاس کے بعد 60 دنوں کے اندر حلف اٹھانا لازم ہے، تاہم سابق وزیر خزانہ نے خط میں واضح کیا کہ یہ شرط ان پر لاگو نہیں ہوتی کیونکہ وہ اس کے نفاذ سے پہلے منتخب ہوئے تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے خط کے ہمراہ لندن میں اپنے معالج کی تازہ ترین میڈیکل رپورٹ بھی ارسال کی ہے، انہوں نے اپنے خط کی کاپی اور میڈیکل رپورٹ چیئرمین سینٹ اور الیکشن کمیشن کو بھی ای میل کے ذریعے بھیج دی ہیں۔

پس منظر

خیال رہے کہ سینیٹ انتخابات سے قبل اسحٰق ڈار کی نامزدگی کو لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) میں چیلنج کیا گیا تھا جسے بعد میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔

ان کے انتخاب کے بعد حریف امیدوار پی ٹی آئی کے نوازش علی پیرزادہ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے بار بار سمن جاری کرنے کے باوجود پیش نہ ہونے پر 8 مئی 2018 کو ای سی پی کی جانب سے جاری اسحٰق ڈار کی جیت کا نوٹی فکیشن معطل کر دیا تھا۔

تاہم گزشتہ سال دسمبر میں سپریم کورٹ نے مقدمہ نہ چلانے کی اپیل کو خارج کر دیا، لہٰذا ای سی پی کی جانب سے سابق وزیر خزانہ کے حق میں کسی بھی نوٹی فکیشن کے اجرا کے خلاف عدالت کا 2018 کا حکم امتناع خارج کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسحٰق ڈار دل اور گردن کے مہروں کے عارضے میں مبتلا ہیں، طبی رپورٹ

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ای سی پی نے 10 جنوری کو اسحٰق ڈار کی بطور سینیٹر جیت کا نوٹی فکیشن بحال کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ اسحٰق ڈار اکتوبر 2017 میں علاج کے لیے اس وقت لندن چلے گئے تھے جب احتساب عدالت ان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بدعنوانی کے ریفرنس کی سماعت کر رہی تھی۔

ان پر 83 کروڑ 17 لاکھ روپے کے اثاثے بنانے کا الزام تھا جو کہ نیب کی جانب سے ان کے معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ ہے، انہیں 21 نومبر 2017 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے مفرور قرار دیا تھا۔

اس سے قبل عدالت نے اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو (اے جی پی آر) والے اکاؤنٹ کے علاوہ ان کے دیگر اثاثوں، جائیدادوں، بینک اکاؤنٹس اور پاکستان اور بیرون ملک سرمایہ کاری کو منجمد کرنے کی توثیق کی تھی۔

انہیں 11 دسمبر 2017 کو ایک کھرب 20 ارب روپے مالیت کے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں بھی مفرور قرار دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں