خاتون ہاؤس افسر کا یونیورسٹی اہلکاروں پر ہراسانی، قتل کی کوشش کا الزام

10 فروری 2022
ہاؤس افسر کا دعویٰ ہے کہ آج تک ایم بی بی ایس کی کسی طالبہ نے کبھی خودکشی نہیں کی بلکہ سب کو قتل کیا گیا ہے — فائل فوٹو: اے پی
ہاؤس افسر کا دعویٰ ہے کہ آج تک ایم بی بی ایس کی کسی طالبہ نے کبھی خودکشی نہیں کی بلکہ سب کو قتل کیا گیا ہے — فائل فوٹو: اے پی

نواب شاہ میں ایک ہاؤس افسر نے پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز برائے خواتین کے 3 اہلکاروں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے اپنے غیر اخلاقی مطالبات نہ ماننے پر انہیں مار مار کر قتل کرنے کی کوشش کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہاؤس افسر کا دعویٰ ہے کہ آج تک ایم بی بی ایس کی کسی طالبہ نے کبھی خودکشی نہیں کی بلکہ سب کو قتل کیا گیا ہے۔

دادو کی رہائشی پروین رند اس میڈیکل یونیورسٹی کے نرسنگ سیکشن میں ہاؤس جاب کرتی ہیں، انہوں نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ تینوں اہلکاروں نے انہیں ہاسٹل کے کمرے میں بند کرکے مارا پیٹا۔

انہوں نے ویڈیو میں اپنے بازوؤں پر تشدد کے نشانات دکھائے اور کہا کہ مذکورہ اہلکار انہیں اپنے غیر اخلاقی مطالبات ماننے پر مجبور کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ نے طالبہ کی بلیک میل کیے جانے پر خودکشی کا نوٹس لے لیا

انہوں نے بتایا کہ یہ تینوں اہلکار یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس کے پہلے سال سے ہی انہیں ہراساں کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان اہلکاروں نے انہیں پہلے قتل کی گئی دوسری لڑکیوں کی طرح مارنے کی کوشش کی۔

پروین رند نے بتایا کہ اس سے قبل ان تینوں نے اپنے مطالبات منوانے میں ناکامی پر انہیں بلیک میل کرنے کے لیے ان کا موبائل فون چھیننے کی کوشش بھی کی تھی۔

ویڈیو میں انہوں نے روتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ہاسٹل میں کسی طالبہ نے خودکشی نہیں کی، بلکہ ان سب ہی کو قتل کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: دادو: بلیک میل کیے جانے پر ایم بی بی ایس کی طالبہ کی ’خودکشی‘

وہ مبینہ طور پر ڈاکٹر نمرتا اور ڈاکٹر نوشین شاہ کی چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ میں ان کی ہاسٹل کے کمروں میں پراسرار ہلاکت، سندھ یونیورسٹی کے ہاسٹل کے کمرے میں نائلہ رند کی موت اور ڈاکٹر عصمت راجپوت کی سیتا روڈ ٹاؤن میں اپنے گھر میں 'خودکشی' کا حوالہ دے رہی تھیں۔

پروین رند کا کہنا تھا کہ انہوں نے کافی تکالیف برداشت کی ہیں لیکن اب وہ اپنی جان اور عزت کے تحفظ کے لیے میڈیا کے سامنے یہ سب بتا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ درحقیقت یونیورسٹی کے ہاسٹل میں کوئی لڑکی محفوظ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاڑکانہ کے چانڈکا میڈیکل کالج میں طالبہ کی پراسرار موت

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو سے بھی ملاقات کی اور ان سے انصاف اور تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے اپیل کی کہ وہ ان کی اپیلوں کا نوٹس لیں اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔

بعد ازاں مبینہ متاثرہ خاتون پاکستان پیپلز پارٹی دادو کے مقامی رہنما علی نواز رند کے ہمراہ تینوں اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے لیے اے سیکشن تھانے پہنچیں لیکن پولیس نے ان کے طبی معائنے اور دعووں کی تصدیق کی بجائے ایک خط جاری کر دیا۔

نواب شاہ کے ایس ایس پی عامر سعود مگسی نے بتایا کہ سٹی ڈی ایس پی سلطان چانڈیو اور خواتین تھانے کے ایس ایچ او کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو لڑکی کے دعووں کی تحقیقات کر کے 3 دن میں رپورٹ پیش کرے گی۔

تاہم انہوں نے کہا کہ پولیس نے رپورٹ کا انتظار کیے بغیر فوراً تفتیش شروع کر دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاڑکانہ: ڈینٹل کالج کی طالبہ کی ہاسٹل میں پراسرار موت

یونیورسٹی کے رجسٹرار نے ایک پریس ریلیز میں پروین رند کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

رجسٹرار نے کہا کہ ان کے الزامات بے بنیاد ہیں کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ اور ہاؤس افسران کو تقویض کمرے تبدیل کرنا چاہتی تھی لیکن پروین رند نے دوسرے کمرے میں شفٹ ہونے سے انکار کر دیا۔

پروین رند کے چچا علی نواز رند نے رجسٹرار کے بیان کو مسترد کیا ہے، انہوں نے کہا کہ پروین نے جن 3 اہلکاروں کے نام اپنی ویڈیو میں لیے انہوں نے اپنے مطالبات نہ ماننے پر پروین کو قتل کرنے کی کوشش کی۔

علی نواز رند نے تینوں اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں