ویسے تو 5جی ٹیکنالوجی ہی بہت کم ممالک میں ہی دستیاب ہے مگر چین میں اگلی نسل کے موبائل انٹرنیٹ پر بہت تیزی سے کام ہورہا ہے۔

چینی محققین نے بتایا کہ انہوں نے ونٹر اولمپکس کے دوران ایک انقلابی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے ریکارڈ ڈیٹا اسٹریمنگ اسپیڈ کے حصول میں کامیابی حاصل کی ہے جس سے چین کو نئی نسل کے موبائل انٹرنیٹ یا 6 جی کی عالمی ریس کی قیادت کرنے میں مدد مل سکے گی۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے ورٹیکس ملی میٹر ویوز کو استعمال کیا جو بہت زیادہ فریکوئنسی والی ریڈیو لہریں ہیں، جس کی مدد سے وہ ایک سیکنڈ میںایک کلومیٹر کے رقبے پر ایک ٹی بی ڈیٹا ٹرانسمیٹ کرنے کے قابل ہوگئے۔

بیجنگ کی Tsinghua یونیورسٹی کے ماہرین نے بتایا کہ یہ تجرباتی وائرلیس کمیونیکشن لائن ونٹر اولمپکس کے کمپاؤنڈ میں جنوری 2022 میں نصب کی گئی تھی جس سے 10 ہزار سے زیادہ ایچ ڈی لائیو ویڈیو فیڈز کو بیک وقت کیا جاسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ورٹیکس ویوز سے وائرلیس ٹرانسمیشن میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوگا اور اس تجربے سے عندیہ ملتا ہے کہ چین 6 جی ٹیکنالوجیز میں دنیا کی قیادت کررہا ہے۔

اس وقت موبائل ڈیوائسز میں الیکٹرو میگنیٹک ویوز استعمال کی جاتی ہیں جو ریاضیاتی نکتہ نظر سے محض 2 ڈی ہیں۔

اس کے مقابلے میں کورٹیکس الیکٹرومیگنیٹک ویوز تھری ڈی ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں کمیونیکشن بینڈ ودتھ میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔

اس طرح کی ریڈیو لہروں کی خوبیوں کو سب سے پہلے 1999 میں برطانوی سائنسدان جان ہنری پوائنٹنگ نے بیان کیا تھا مگر ان کو استعمال کے قابل بنانا بہت مشکل ہے۔

اب چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پیشرفت دنیا بھر کی تحقیقی ٹیم کی سخت محنت کے بعد ہوئی ہے۔

یورپی ماہرین نے 1990 کی دہائی میں ورٹیکس ویوز پر اولین تجربات کیے تھے جبکہ 2020 میں جاپان کی تحقیقی ٹیم نے 10 میٹر رقبے پر 200 جی بی پی ایس اسپیڈ کے حصول میں کامیابی حاصل کی تھی۔

اس حوالے سے بڑا چیلنج گھومنے والی لہروں کے فاصلے کو بڑھانا ہوتا ہے اور ایسا کرنے سے کمزور سگنل ہائی اسپیڈ ڈیٹا ٹرانسمیشن کو مشکل بنادیتے ہیں۔

اس رکاوٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے چینی سائنسدانوں نے ایک منفرد ٹرانسمیٹر تیار کیا جو زیادہ فوکس ورٹیکس بیم تیار کرتا ہے اور اس سے لہروں کے گھومنے کا عمل 3 مختلف موڈز میں تقسیم ہوجاتا ہے جو زیادہ تفصٰلات لے جاسکتے ہیں۔

اسی طرح ریسیونگ ڈیوائس اتنی بڑی مقدار میں ڈیٹا کو اسپلٹ سیکنڈ میں پک اور ڈی کوڈ کرسکتی ہے۔

چینی حکومت کے 6 جی پر تحقیق کرنے والے ایک محقق نے بتایا کہ بیجنگ میں کیے جانے والا تجربہ کمیونیکشن ٹیکنالوجی میں انقلاب کا آغاز ثابت ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ پرجوش چیز صرف رفتار نہیں بلکہ ایک نیا فزیکل ڈائیمینشن کو متعارف کرانا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت چینی حکومت اور ٹیلی کمیونیکشن انڈسٹری کی وجہ سے زیادہ توجہ 5 جی کی عام اپلیکشنز پر ہوگی تاکہ آنے والے برسوں میں اس ٹیکنالوجی کی لاگت کو کم کیا جاسکے۔

ان کے بقول 6 جی ٹیکنالوجی کو کمرشل بنیادوں پر متعارف کرانے کا آغاز 2030 میں متوقع ہے مگر فوج کی جانب سے اس سے قبل ہی اسے اپنایا جاسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں