کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ عدم ثبوت کی بنا پر 17ویں مقدمے سے بری

اپ ڈیٹ 17 فروری 2022
عدالت نے کہااستغاثہ ملزمان کے خلاف الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا— فائل فوٹو: ڈان نیوز
عدالت نے کہااستغاثہ ملزمان کے خلاف الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا— فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ کو 17ویں فوجداری مقدمے سے عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا۔

عذیر بلوچ پر الزام تھا کہ انہوں نے محمد شاہد کے ہمراہ 2012 میں نیپیئر تھانے کی حدود میں آپریشن کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پولیس اہلکاروں پر حملے کا کیس: عزیر بلوچ سمیت 5 افراد بری

منگل کو معاملہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 7 کے جج کے سامنے آیا جنہوں نے سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کی۔

دونوں فریقین کے شواہد اور حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے بعد عدالت نے اپنے فیصلے کو پہلے ہی محفوظ کر لیا تھا۔

جج نے نوٹ کیا کہ استغاثہ دونوں ملزمان کے خلاف الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا اس لیے انہیں عدم ثبوت کی بنا پر بری کیا جاتا ہے۔

اس سے قبل عذیر بلوچ اور محمد شاہد کو جیل سے جج کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عذیر بلوچ قتل کے مزید تین مقدمات میں انسداد دہشت گردی عدالت سے بری

جج نے جیل حکام کو ہدایت کی کہ اگر کسی اور مقدمے میں ان کی تحویل کی ضرورت نہ ہو تو انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔

استغاثہ کے مطابق کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ نے اپنے مفرور ساتھیوں تاج محمد عرف تاجو، حبیب جان بلوچ، شیراز کامریڈ، عمر کچھی اور ظفر بلوچ عرف لنگڑا اور گینگ وار کے 25 سے 30 دیگر نامعلوم اراکین کے ہمراہ 13 اپریل 2012 کو چاکیواڑہ روڈ پر حکومت اور پولیس کے خلاف ہنگامہ آرائی کے دوران نفرت انگیز نعرے لگائے تھے اور محمد حنیف کے گھر سے راکٹ فائر کیے تھے۔

الزام عائد کیا گیا تھا کہ 45 سالہ حنیف، اس کا بیٹا محمد عارف اور بیٹی افشاں حملے میں زخمی ہوئے تھے اور حنیف زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے تھے۔

مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 427 اور 34 کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی 1997 کی دفعہ 7 کے تحت ریاست کی جانب سے نیپئر پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: عذیر بلوچ کا جاسوسی، 198 افراد کے قتل کا اعتراف، جے آئی ٹی رپورٹ جاری

عذیربلوچ کے خلاف انسداد دہشت گردی اور سیشن عدالتوں میں 5 درجن سے زائد مقدمات کا سامنا ہے اور اب تک 17 مختلف مقدمات میں عدم ثبوت کی بنا پر بری ہو چکے ہیں۔

ملزمان کے خلاف قتل، اقدام قتل، بھتہ، اغوا اور حالات خراب کرنے کے الزامات کی بنیاد پر اکثر مقدمات لیاری میں گینگسٹرز کے خلاف 2004 سے 2013 کے درمیان آپریشن کے دوران درج کیے گئے تھے۔

یاد رہے کہ رینجرز نے جنوری2016 میں عذیر بلوچ کو کراچی کے مضافات سے ایک کارروائی کے دوران گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا۔

گزشتہ سال حکومت سندھ نے لیاری گینگ وار اور لیاری امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ کی جوائنٹ انوسٹی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ جاری کی تھی جس میں ملزم نے سیاسی و لسانی بنیادوں پر 198 افراد کے قتل کا اعتراف کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لیاری گینگ وار کا سرغنہ عذیر بلوچ پولیس پر حملے کے 2 مقدمات میں بری

حکومت سندھ کی جانب سے جاری کی گئی جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملزم مختلف مجرمانہ واقعات میں ملوث ہونے کے باعث 2006 سے 2008 تک کراچی سینٹرل جیل میں قید رہا جبکہ ملزم جون 2013 میں کراچی سے براستہ ایران دبئی فرار ہو گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں