عذیر بلوچ قتل کے مزید تین مقدمات میں انسداد دہشت گردی عدالت سے بری

عذیر بلوچ گزشہ ماہ بھی متعدد کیسز میں بری ہوچکے ہیں—فائل/فوٹو: ڈان نیوز
عذیر بلوچ گزشہ ماہ بھی متعدد کیسز میں بری ہوچکے ہیں—فائل/فوٹو: ڈان نیوز

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کالعدم پیپلزامن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ کو قتل اور دھماکوں کے تین مقدمات میں عدم ثبوت کے باعث شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا۔

عذیربلوچ سمیت دیگر کئی مفرور ملزمان پر اپریل 2012 میں لیاری کے علاقے کلری میں تین گرینیڈ حملوں میں شہریوں کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔

مزید پڑھیں: عزیز بلوچ قتل کے مزید 2 مقدمات میں بری

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کی اور دونوں فریقین کے ثبوت اور دلائل سننے کے بعد محفوظ فیصلہ سنا دیا۔

انسداد دہشت گردی کے جج نے کہا کہ استغاثہ عذیر بلوچ، طارق عزیز عرف سیاپت سمیت دیگر ملزمان پر عائد الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا، اس لیے 'شک کا فائدہ' دیتے ہوئے انہیں بری کردیا گیا۔

مقدمے میں نامزد دیگر ملزمان میں حبیب جان بلوچ، فہیم، عمر کچھی، ظفر بلوچ، وسیع اللہ لاکھو اور شکیل شامل تھے۔

عذیربلوچ کے خلاف انسداد دہشت گردی اور سیشن عدالتوں میں 5 درجن سے زائد مقدمات کا سامنا ہے اور اب تک 8 مختلف مقدمات میں عدم ثبوت کی بنا پر بری ہو چکے ہیں۔

ملزمان کے خلاف قتل، اقدام قتل، بھتہ، اغوا اور حالات خراب کرنے کے الزامات کی بنیاد پر اکثر مقدمات لیاری میں گینگسٹرز کے خلاف 2004 سے 2013 کے درمیان آپریشن کے دوران درج کیے گئے تھے۔

یاد رہے کہ رینجرز نے جنوری2016 میں عذیر بلوچ کو کراچی کے مضافات سے ایک کارروائی کے دوران گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ ایک اور کیس میں بری

عذیر بلوچ سیکیورٹی خدشات کے باعث اس وقت رینجرز کےمیٹھا رام سب جیل میں حراست میں ہیں جبکہ آرمی نے انہیں جاسوسی کےایک مقدمےمیں اپنی تحویل میں لیا تھا لیکن بعد میں رینجرز کے واپس کردیا تھا اور ان الزامات کو انہوں نے مسترد کردیا تھا۔

عذیر بلوچ نے اس سےقبل انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو بتایا تھا کہ انہیں سیاسی طور پر پاکستان پیپلزپارٹی سے منسلک ہونے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مبینہ طور طور پر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شمولیت کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ کراچی کی سیشن عدالت نے 29 جنوری کو کالعدم پیپلزامن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کو قتل کے 2 مقدمات میں عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا تھا۔

جج نے کہا تھا کہ استغاثہ عزیر بلوچ اور ان کے ساتھی کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی، جس کے باعث عدم ثبوتوں کی وجہ سے انہیں ان الزامات سے بری کردیا گیا۔

عدالت کی جانب سے یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ اگر ملزمان کی کسی اور مقدمے میں حراست ضروری نہیں تو ان دونوں کو فوری طور پر رہا کردیا جائے۔

اس سے قبل 20 جنوری کو کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر جان بلوچ اور ایک اور فرد کو انکاؤنٹر اور اقدام قتل کے مقدمے میں بری کیا تھا۔ کراچی کی سیشن کورٹ نے12 جنوری کو کالعدم پیپلز امن کمیٹی ومبینہ لیاری گینگ وار کے سربراہ عذیر جان بلوچ کو قتل کے ایک اور مقدمے میں بری کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: لیاری گینگ وار کا سربراہ عذیر بلوچ قتل کے ایک اور مقدمے میں بری

قبل ازیں 8 جنوری کو کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پولیس اہلکاروں پر مسلح حملے سے متعلق 2 مقدمات میں 'ثبوتوں کی عدم دستیابی' پر عزیر بلوچ سمیت 10 افراد کو بری کیا تھا۔

خیال رہے کہ عزیر بلوچ کو پاکستان رینجرز سندھ کی جانب سے ابتدائی طور پر 90 روز کی حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا اور پھر جنوری 2016 میں ان کی پراسرار گرفتاری کے بعد انہیں پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

جس کے بعد اپریل 2017 میں فوج نے اعلان کیا تھا کہ 'جاسوسی' کے الزامات پر انہوں نے عزیر بلوچ کی حراست میں لے لیا۔

بعد ازاں 3 سال بعد فوج کی جانب سے عزیر بلوچ کو جیل حکام کے حوالے کردیا گیا تھا جس کے بعد محکمہ جیل نے انہیں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں