آئی ایم ایف معاہدے کے تحت مانع حمل مصنوعات پر بھاری ٹیکسز عائد ہونے کا اندیشہ

اپ ڈیٹ 19 فروری 2022
سماجی رہنما نےکہا کہ ٹیکس کے نئے دائرہ کار کے اثرات  ملک برداشت نہیں کرسکتا— فائل فوٹو: رائٹرز
سماجی رہنما نےکہا کہ ٹیکس کے نئے دائرہ کار کے اثرات ملک برداشت نہیں کرسکتا— فائل فوٹو: رائٹرز

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 6 ارب ڈالر کی امداد کے بعد پاکستان میں مہنگائی کی نئی لہر کے خدشات کے دوران اس بات پر اظہارِ تشویش کیا جارہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے سے ہوئے سمجھوتے کے نتیجے میں مانع حمل اشیا پر بھی بھاری ٹیکس عائد ہوسکتے ہیں جو براہِ راست بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کو متاثر کرے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر وفاقی حکومت اور آئی ایم ایف حکام سے مذکورہ مصنوعات پر ٹیکس نہ لگانے کی اپیل کرتے ہوئے گلوکار و سماجی رہنما شہزاد رائے نے اس مسئلے کو اجاگر کیا۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ ’پاکستان کے 17 فیصد جوڑے مانع حمل مصنوعات استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن اس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے‘۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کے مطالبے پر سیلز ٹیکس 17 فیصد کیا، چیئرمین ایف بی آر

ان کا کہنا تھا کہ ’اس صورتحال میں ٹیکس براہِ راست آبادی کے اضافے کو متاثر کرے گا، میں آئی ایم ایف، وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خزانہ شوکت ترین سے درخواست کرتا ہوں کہ ٹیکس ختم کرتے ہوئے پیغام دیں کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ ایک بڑا مسئلہ ہے‘۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے آبادی و منصوبہ بندی کے خیر سگالی سفیر شہزاد رائے نے اقوام متحدہ کے پاکستان ڈیموگرافک اور ہیلتھ سروے کا حوالہ دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں 34 فیصد جوڑے مانع حمل مصنوعات کا استعمال کر رہے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’17 فیصد جوڑے وہ ہیں جو ان مصنوعات کا استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر انہیں رسائی حاصل نہیں ہے‘۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف نے حکومت کو سیلز، انکم ٹیکس اقدامات مؤخر کرنے کی اجازت دے دی

انہوں نے کہا کہ ٹیکس کا نیا دائرہ کار اس نظام کو مزید کم کردے گا، جس سے ایسے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔

شہزاد رائے نے کہا کہ ’یہ غلط فہمی ہے کہ ڈیوٹی صرف درآمد شدہ مانع حمل ادویات پر ہے اور یہ صرف امیر طبقہ ہی استعمال کرتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ' درآمد کی جانے والی مانع حمل مصنوعات میں ایمپلانٹ اور آئی یو ڈیز (انٹر یوٹرین ڈیوائس) شامل ہے، امپلانٹ ہر 5 سال جبکہ آئی یو ڈیز ہر 12 سال میں تبدیل کرنا پڑتا ہے، یہ طویل مدتی استعمال کی جانے والی مانع حمل ادویات ہیں اور نس بندی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں'۔

انہوں نے کہا مزید کہا کہ 'یہ ایک بڑی سہولت ہے کیونکہ اس سے بار بار صحت کی سہولیات فراہم کرنے والوں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے'۔

مزید پڑھیں:پاکستان کے قرض پروگرام پر آئی ایم ایف جائزہ ملتوی کرنے کی درخواست منظور

سماجی رہنما نے کہا کہ اس کے برعکس، مقامی طور پر بنائے جانے والے طریقے گولیاں اور انجیکشن ہیں، ہر روز ایک گولی اور ہر ایک سے تین ماہ بعد ایک انجیکشن لگوانا پڑتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بار بار ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔

شہزاد رائے کاکہنا تھا کہ انہوں نے یہ مسئلہ شوکت ترین کے سامنے بھی پیش کیا اور انہوں نے مذکورہ مسئلے پر مثبت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اگر شوکت ترین کو ضرورت محسوس ہوگی تو وہ اس معاملے کو دیگر حکام کے ساتھ بھی اٹھانے کے لیے پرعزم ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں