پیکا ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کریں گے، یوسف رضا گیلانی

21 فروری 2022
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے تجویز کردہ  فیصلوں سے پی ڈی ایم نے تمام انتخابات جیتے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے تجویز کردہ فیصلوں سے پی ڈی ایم نے تمام انتخابات جیتے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف و پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حکومت، پیکا جیسے قوانین کے ذریعے میڈیا اور اپنے مخالفین پر قدغن لگانا چاہتی ہے تاہم ہم اس قانون کے خلاف عدالت میں جائیں گے۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) بنانے کا مقصد انسانی، معاشی، آئینی حقوق اور اظہار اختلافِ رائے کے حقوق پر کام کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج بھی اپوزیشن، اسمبلی کے اندر اور باہر دونوں جگہ مستحکم ہے، اپوزیشن عوامی حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کی تجویز پر ہم نے تہیہ کیا کہ ہم اسمبلی سے مستعفی نہیں ہوں گے، ہم سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں بھی حصہ لیں گے۔

ان کا کہنا تھا مذکورہ فیصلوں سے پی ڈی ایم نے تمام انتخابات جیتے۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے پیکا اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا فیصلہ تھا کہ ہمیں اسمبلیوں سے باہر نہیں آنا چاہیے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے ادوار میں یہی فیصلہ کیا تھا، اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

سابق وزیر اعظم نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج پوری اپوزیشن متحد ہے اور یہ اپوزیشن کی فتح ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت، پیکا کے قوانین کے ذریعے میڈیا، اپوزیشن اور سول سوسائٹی پر قدغن لگانا چاہتی ہے تاکہ ان کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے، وہ سخت قوانین بنانا چاہتے ہیں، ہم نے اپنی حکومت میں سخت قوانین کو ختم کیا اور معلومات تک رسائی کا قانون لے کر آئے۔

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم پیکا کے قانون کو عدالت میں چیلنج کریں گے، تمام جماعتوں اور میڈیا تنظیموں نے اسے رد کیا ہے اور ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پیکا آرڈیننس میں ہتک عزت سے متعلق ترمیم، عدالتی حکم سے متضاد

ان کا کہنا تھا کہ یہ عوام سے ڈرتے ہیں، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں آرڈیننس لانے کا مقصد ہے کہ یہ پارلیمنٹ پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ قوانین کی منظوری کے لیے طریقہ کار پر عمل درآمد نہیں کرتے، اوگرا کے قانون کے لیے انہوں نے قائمہ کمیٹی کو بلایا، اس میں صرف 4 اراکین شامل ہوئے، دوسرے دن بل سینیٹ میں لے کر آگئے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جب ہم نے بل میں ترمیم کا کہا تو ہمیں ترمیم کی یقین دہانی کروائی گئی، اپوزیشن نے بل کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا، ووٹ برابر ہونے کی صورت میں چیئرمین سینیٹ نے پاکستان کی تاریخ میں دوسری بار ووٹ دیا۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت چیئرمین ووٹ ڈال سکتے ہیں لیکن وہ سینیٹ کے سربراہ ہیں، حکومت کے سربراہ نہیں ہیں۔

پیکا آرڈیننس

خیال رہے کہ پیکا آرڈیننس کے مطابق الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب ٹیلی وژن پر کسی بھی 'فرد' کے بارے میں فیک نیوز (جعلی خبر) یا تضحیک بھی الیکٹرانک کرائم تصور کی جائے گی۔

جعلی خبر چلانے پر اب پانچ سال قید کی سزا ہو گی۔

یہ بھی پرھیں: پیکا آرڈیننس: حکومت کو صحافیوں، سیاسی جماعتوں کے شدید ردعمل کا سامنا

جعلی خبر چلانے کی صورت میں صرف متاثرہ فرد ہی نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اتھارٹی سے رابطہ کر کے مقدمہ درج کرا سکے اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہو گا۔

ٹرائل کورٹ کو مقدمے کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر اندر کرنا ہوگا اور مقدمے کے حوالے سے ٹرائل کورٹ ہر ماہ متعلقہ ہائی کورٹ کو آگاہ کرے گی۔

ٹرائل کے دوران اگر ایسا محسوس ہو کہ مقدمے کو نمٹانے میں رکاوٹیں حائل ہیں تو صوبائی حکومتوں اور افسران کو انہیں دور کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔

ان کیسز کے لیے جج اور افسران کی نامزدگی کا اختیار متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہو گا۔

مذکورہ آرڈیننس کو 'امتناع الیکٹرانک کرائم آرڈیننس 2022' کا نام دیا گیا ہے جو فوری طور پر نافذالعمل ہوگا۔

وزیر قانون نے کہا تھا کہ پیکا آرڈیننس میں سزا 3 سے 5 سال تک ہے جبکہ اس کا شکایت کنندہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ صحافی ہیں جو جعلی خبروں کے ذریعے معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی خبر پر 5 سال سزا ہوگی، کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا، فروغ نسیم

یاد رہے کہ پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا)، 2016 میں اپوزیشن کی مخالفت کے باجود اس وقت قومی اسمبلی سےمنظور ہوگیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت تھی۔

مسلم لیگ (ن) نے اکثریت کے بل بوتے پر متنازع بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا تھا، تاہم اپوزیشن نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت انتظامی عہدیداروں کو غیر ضروری اختیارات حاصل ہوں گے، جن کا کسی کے خلاف بھی غلط استعمال ہوسکتا ہے اور مزید یہ کہ ملک میں آزادی اظہار رائے متاثر ہوسکتی ہے۔

قانون میں بتایا گیا تھا کہ مزاحیہ یا طنزیہ مواد کے حامل ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے افسران کو کمپیوٹر، موبائل فون یا کوئی بھی ڈیوائس کھولنے کا اختیار دیا گیا، جس کا مقصد جرم یا الزام پر تفتیش تھا اور بدنام کرنا قابل تعزیر جرم ہوگا۔

نومبر 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے پیکا کے تحت سوشل میڈیا کے قوانین مرتب کیے، جس پر ڈیجیٹل رائٹس کے کارکنوں، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر آف پاکستان اور ایشیا انٹرنیٹ کولیشن نے تنقید کی اور قانون کو وحشیانہ قرار دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں