پیکا آرڈیننس: حکومت کو صحافیوں، سیاسی جماعتوں کے شدید ردعمل کا سامنا

اپ ڈیٹ 21 فروری 2022
شیری رحمان نے کہا کہ اس اقدام کا تعلق جعلی خبروں کو کنٹرول کرنے سے زیادہ حکومت پر جائز تنقید کو روکنے سے ہے—فوٹو: ڈان
شیری رحمان نے کہا کہ اس اقدام کا تعلق جعلی خبروں کو کنٹرول کرنے سے زیادہ حکومت پر جائز تنقید کو روکنے سے ہے—فوٹو: ڈان

حکومت کی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے اور انتخابی قوانین میں تبدیلی کی نئی کوششوں کو اپوزیشن جماعتوں سمیت میڈیا اور صحافیوں کی مختلف تنظیموں کی جانب سے بھی بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ناقدین کی جانب سے اسے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا ایک اور مضحکہ خیز اقدام قرار دیا جارہا ہے جس سے شہریوں کے بنیادی حقوق پر بیڑیاں ڈال دی جائیں گی اور اظہار رائے اور اختلاف رائے کی آزادی کو سلب کرلیا جائے گا۔

میڈیا اور صحافتی تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ وہ میڈیا کی آزادی سلب کرنے والے اس آرڈیننس کے خلاف نہ صرف قانونی کارروائی کریں گے بلکہ اس کے خلاف ایک احتجاجی تحریک بھی چلائیں گے۔

حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان (ایم کیو ایم-پی) نے بھی متنازع آرڈیننس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور اسے حکومت کی جانب سے رعایت حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی خبر پر 5 سال سزا ہوگی، کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا، فروغ نسیم

ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے وزیر قانون فروغ نسیم [جو ایم کیو ایم پاکستان کے سینیٹر بھی ہیں] کی جانب سے آرڈیننس کے نفاذ کے اعلان کے چند گھنٹے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے قوانین خود حکومت کے لیے مسائل پیدا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم صورتحال کا باریک بینی سے تجزیہ کر رہی ہے لیکن ہم واضح ہیں کہ ایسے آرڈیننس سے مسائل حل نہیں ہوں گے، یہ ایک طرح سے شکست تسلیم کرنے اور پھر اس کا عوامی طور پر اعلان کرنے کے مترادف ہے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ایم کیو ایم-پاکستان کے ایک اور قانون ساز امین الحق سے پہلے پی ٹی آئی حکومت میں آئی ٹی کے وزیر کے طور پر کام کر چکے ہیں

اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے جاری بیان میں کہا کہ جلد ہی پی ٹی آئی خود ان نئے قوانین کا شکار ہو جائے گی۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے پیکا اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’اس حکومت کی جانب سے جو قانون سازی کی جا رہی ہے اس کا مقصد بظاہر میڈیا اور اپوزیشن کی آوازوں کو دبانا ہے لیکن یہ قوانین عمران اینڈ کمپنی کے خلاف استعمال ہونے والے ہیں، پھر مت کہنا کہ آپ کو (اس کے بارے میں) نہیں بتایا گیا‘۔

آرڈیننس کی مذمت کرتے ہوئے سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمان نے کہا کہ اس اقدام کا تعلق جعلی خبروں کو کنٹرول کرنے سے زیادہ حکومت پر جائز تنقید کو روکنے سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ اقدام واقعی جعلی خبروں کو روکنے کے لیے ہوتا تو اسٹیک ہولڈرز اور صحافتی اداروں کو اعتماد لیا جاتا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ آرڈیننس کے ذریعے الیکٹرانک کرائمز لا اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم قومی سطح پر بحث و مباحث سے انکار اور پارلیمنٹ کو قانون سازی کے آئینی حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صحافیوں کے تحفظ کا بل، نیب ترمیمی آرڈیننس سینیٹ سے بھی منظور، اپوزیشن کا احتجاج

انہوں نے کہا کہ حکومت نے آن لائن مواد کو سنسر کرنے کے لیے منظم اقدامات کیے ہیں، اس نئی قانون سازی نے شہریوں کے بنیادی حقوق پر بیڑیاں ڈال دیں۔

کراچی سے جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)، پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن اور ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اور نیوز ڈائریکٹرز پر مشتمل میڈیا کی مشترکہ ایکشن کمیٹی نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) میں ’ظالمانہ ترامیم‘ کو مسترد کر دیا اور اسے میڈیا کی آزادی، اظہار رائے اور اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے ایک صریح اقدام قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار کو روکنے کی کسی بھی کوشش کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا، اگر ضرورت پڑی تو کمیٹی اپنی انتظامی باڈی کی بھرپور طاقت کے ساتھ ایسے اقدام کی مخالفت کرے گی۔

پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار اور سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے ایک علیحدہ بیان میں آرڈیننس پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ قوانین میں ترمیم کی جا رہی ہے تاکہ حقوق کو سلب کرنےکے لیےانہیں مزید سخت بنایاجا سکے۔

مزید پڑھیں: میڈیا انڈسٹری کی نمائندہ تنظیموں نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو مسترد کردیا

انہوں نے کہا کہ آئین میں عدلیہ اور مسلح افواج کی سالمیت اور وقار کے تحفظ کے لیے پہلے ہی واضح دفعات موجود ہیں تو مزید زبردستی اقدامات کی ضرورت کیوں ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ جب عدالتیں موجودہ قوانین کو استعمال کر سکتی ہیں تو کسی بھی شخص یا ادارے کو بدنام کرنے میں ملوث شخص کو سزا دینے کے لیے پیکا میں ترمیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

پی ایف یو جے کے رہنماؤں نے اس آرڈیننس کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع کرنے کا عزم کیا۔

وزرا سمیت اراکین پارلیمنٹ کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت دینے کے لیے الیکشنز ایکٹ 2017 میں ترمیم کے لیے ایک اور قانون سازی پر تبصرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یکطرفہ ترامیم آمرانہ ذہنیت کی علامت ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں