پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا پہلا ایلیمینیٹر 2 ایسی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا جو پورے ٹورنامنٹ میں سیٹل نہیں ہوسکیں۔ ایک میچ میں اپنی بہترین کرکٹ کھیلتی یہ ٹیمیں، اگلے ہی میچ میں بُرا کھیل پیش کرکے ہار جاتیں۔

دونوں ٹیموں کی کارکردگی میں تسلسل نہیں تھا۔ ویسے تسلسل اس بار پی ایس ایل میں صرف 2 ٹیموں کی کارکردگی میں ہی نظر آیا، ایک 11 میں سے 10 میچ جیت کر فائنل میں ہے تو دوسری 10 میں سے 9 میچوں میں شکست کے بعد پی ایس ایل کی تاریخ میں بدترین کارکردگی کا ریکارڈ اپنے نام کرچکی ہے۔


پشاور زلمی


پشاور زلمی کا ٹاکرا ٹورنامنٹ کے درمیان میں ملتان سلطانز سے ہوا اور اوپر تلے 2 بار ہوا اور وہاں لگا کہ شاید پاکستان سپر لیگ کی تاریخ میں پہلی بار پشاور زلمی کی ٹیم پلے آف تک نہیں پہنچ پائے گی۔

6 میچوں میں صرف 2 فتوحات کے ساتھ اس وقت زلمی پوائنٹس ٹیبل پر 4 پوائنٹس کے ساتھ صرف کراچی کنگز سے اوپر تھی۔ پشاور زلمی کی جانب سے اس وقت تک 7، 8 بلے باز بطور اوپنر کھیل چکے تھے، ہر میچ میں ٹیم تبدیل کی جا رہی تھی، باؤلنگ یونٹ بدل رہا تھا لیکن شاید ٹی20 لیگ کرکٹ کا اب یہی طریقہ ہے۔ اس وقت تک تبدیلیاں کرتے رہو جب تک بہترین کمبینیشن نہ مل جائے۔

بہترین کمبینیشن تو نہیں بنا لیکن پشاور زلمی نے بہترین وقت پر نتائج ضرور بدل دیے۔ جب زلمی کے باہر ہونے کی باتیں شروع ہوئیں تبھی زلمی نے جیتنا شروع کردیا اور لگاتار 4 میچ جیت لیے۔ نیٹ رن ریٹ کچھ بہتر ہوتا تو کوالیفائر میں ملتان سلطان کے مقابل ہوتے لیکن زلمی کے لیے پلے آف میں مسلسل ساتویں بار پہنچنا بھی کسی اعزاز سے کم نہیں تھا، خاص طور پر جب کوئی اور ٹیم ایسا کارنامہ نہ کرسکی ہو۔


اسلام آباد یونائیٹڈ


اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیے ٹورنامنٹ کا آغاز بہت شاندار تھا۔ یوں تو وہ پہلے 5 میں سے 3 میچ ہی جیتے تھے لیکن یہ ان کے کھیلنے کا طریقہ تھا جو سبھی کو متاثر کر رہا تھا۔ اننگ کے آغاز سے اختتام تک مار دھاڑ کا ایسا سلسلہ تھا کہ جس سے بچنا کسی بھی ٹیم کے لیے ممکن نہ تھا۔

لیکن ٹورنامنٹ کراچی سے لاہور منتقل ہوا تو پال اسٹرلنگ کو آئرلینڈ کی جانب سے کھیلنے کے لیے واپس جانا پڑا۔ پھر ایلکس ہیلز ببل ماحول سے گھبرا کر واپس چلے گئے۔ حسن علی اور محمد وسیم جونئیر تو جیسے باؤلنگ ہی کرنا بھول گئے۔ معاملہ یہاں رکا نہیں بلکہ اسلام آباد کے لیے سب سے مؤثر کھلاڑی کے طور پر سامنے آنے والے شاداب خان اور نوجوان فاسٹ باؤلر ذیشان ضمیر ان فٹ ہوکر باہر ہوگئے۔

خیر، اس تمہید کے بعد ہم کچھ بات کرلیتے ہیں کہ گزشتہ روز ہونے والے اہم ترین میچ، یعنی پہلے ایلیمینٹر کی۔


پہلا ایلیمینٹر


اس میچ میں ٹاس پشاور کے کپتان وہاب ریاض نے جیتا اور لاہور قلندرز اور شاہین آفریدی کی کوالیفائر میں کی گئی غلطی سے سبق سیکھتے ہوئے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔

پچھلے میچوں میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے محمد حارث اس بار کچھ خاص نہ کرسکے اور نہ ہی یاسر خان کچھ بڑا کرسکے لیکن ٹورنامنٹ کے ابتدائی حصے میں ناکامی کا شکار کامران اکمل کسی اور ہی موڈ میں تھے۔

کامران اکمل کچھ ویسے ہی اسٹروکس کھیلتے دکھائی دیے جن کی بدولت پشاور زلمی پچھلے سیزنز کے کئی میچوں میں فتح حاصل کرچکی تھی۔ شعیب ملک کا آغاز سُست تھا لیکن کامران اکمل کا بلا رنز اگل رہا تھا اور پشاور زلمی 180 سے زائد کے اسکور کی جانب رواں دواں تھی۔

کامران اکمل کی وکٹ گری تو اسکور کی رفتار کم ہوگئی لیکن شاداب خان کا 16ویں اوور کے لیے خود باؤلنگ پر آنا زلمی کے حق میں بہت اچھا ثابت ہوا۔

شاداب نے اپنے پہلے 3 اوورز میں صرف 14 رنز دیے تھے لیکن چوتھے اوور میں انہوں نے 21 رنز دے دیے۔ شعیب ملک اور حسین طلعت نے اگلے 2 اوورز میں 26 مزید رنز بنائے اور لگا کہ اب 180 کا اسکور بن سکتا ہے۔

مگر 19ویں اوور میں فہیم اشرف کی لائن، لینتھ اور رفتار اتنی عمدہ رہی کہ نہ تو نصف سنچری تک پہنچے ہوئے شعیب ملک کوئی بڑا شاٹ لگا پائے اور نہ ہی نوجوان حیدر علی کے بلے پر گیند آئی اور یوں اسکور 169 پر ہی رک گیا۔ 11 رنز کا یہ فرق شاید آخر میں میچ کے نتیجے پر بہت بڑا اثر ڈال گیا۔

ایلکس ہیلز پی ایس ایل کے ابتدائی حصے میں بہترین ہٹنگ کر رہے تھے لیکن کھیلتے کھیلتے کچھ ایسا ہوا کہ ایلکس ہیلز کو پی ایس ایل چھوڑ کر واپس جانا پڑا۔ بائیو سیکیور ببل میں فائیو اسٹار ہوٹلز میں رہنا کتنا دشوار ہوسکتا ہے یہ وہی جان سکتا ہے جسے ایسے ماحول میں مسلسل رہنا پڑے۔

ہیلز کے جانے سے اسلام آباد یونائیٹڈ کی کارکردگی پر بہت منفی اثرات پڑے اور جب یونائیٹڈ کو ایلیمینیٹر میں ہیلز کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہیلز نے واپس آنے کا فیصلہ کرلیا۔

ہیلز کی یہ واپسی بہت مختصر ہوسکتی تھی لیکن محمد حارث بیٹنگ میں ناکامی کے بعد اس وقت گیند پکڑنے میں بھی ناکام رہے جب ایلکس ہیلز اننگ کی پانچویں ہی گیند پر ایک بڑی ہٹ لگانے کے لیے کریز سے بہت باہر نکل کھڑے ہوئے تھے۔

مسٹری اسپنر علی ماجد پشاور زلمی کی جانب سے پہلا میچ کھیل رہے تھے اور انہوں نے پہلے اوور میں بہت عمدہ باؤلنگ کی۔ اگر محمد حارث ان کی بال پر یہ موقع ضائع نہیں کرتے تو شاید علی ماجد فتح کی بنیاد رکھ جاتے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔

بنگلہ دیش پریمیئر لیگ سے آنے والے ول جیکس تو زیادہ دیر ایلکس ہیلز کا ساتھ نہ دے سکے لیکن شاداب خان نے ہیلز کا اچھا ساتھ دیا۔ وہاب ریاض شروع میں ہی اسپنرز کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر رہے تھے، شاید آخری اوورز میں ریورس سوئنگ کا انتظار تھا۔ خالد عثمان کپتان کی توقعات پر پورا اترے اور ایک عمدہ اسپیل کیا، اور انہوں نے 4 اوورز میں صرف 17 رنز دیے اور ول جیکس کو پویلین کی راہ دکھائی۔

سلمان ارشاد اس پورے ایونٹ میں پشاور کے لیے اہم باؤلر ثابت ہوئے ہیں اور اس میچ میں بھی انہوں نے پشاور کو جیت کی راہ پر لانے کے لیے اہم ترین کردار ادا کیا، مگر تمام تر کوششوں کے باوجود ایسا نہیں ہوسکا۔

انہوں نے اس اہم ترین میچ میں 3 اہم ترین وکٹیں حاصل کیں۔ جن دو گیندوں پر سلمان نے ہیلز اور آصف علی کو بولڈ کیا، انہیں دیکھ کر لستھ مالنگا اور وقار یونس کی یاد آگئی۔ دلچسپ بات یہ کہ اس وقت وقار یونس کمنٹری باکس میں موجود تھے اور انہوں نے سلمان ارشاد کی باؤلنگ پر دل کھول کر داد دی۔

اگر یہ کہا جائے کہ پشاور کی اس شکست کے اہم ترین ذمہ دار ان کے کپتان وہاب ریاض ہیں تو غلط نہیں ہوگا، کیونکہ وہ اس میچ میں واحد باؤلر تھے جنہوں نے مخالف ٹیم کے بلے بازوں کو کُھل کر رنز بنانے کا موقع فراہم کیا۔ وہاب نے اپنے 4 اوورز میں 52 رنز دیے اور کوئی بھی وکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

حالانکہ چند دن پہلے لاہور قلندرز کے خلاف وہاب ریاض کی جانب سے کیا گیا شاندار سپر اوور کسی اور ہی صدی کی بات لگ رہی تھی۔ وہاب ریاض کو ول جیکس، ایلیکس ہیلز، فہیم اشرف غرض جس بلے باز نے بھی نے کھیلا باؤنڈری ضرور لگائی۔

اس میچ میں کامران اکمل، شعیب ملک اور ایلیکس ہیلز نے نصف سنچریاں بنائیں لیکن میچ کے نتیجے پر باؤلنگ کرتے ہوئے وہاب ریاض کی نصف سنچری نے ان تینوں سے کہیں زیادہ اثر ڈالا۔

فہیم اشرف نے اچھی باؤلنگ کے بعد ذمہ دارانہ بیٹنگ کی بھی اور یوں آل راؤنڈ کارکردگی کی بنیاد پر اسلام آباد یونائیٹڈ دوسرے ایلیمینیٹر میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جہاں لاہور قلندرز کے خلاف ایک اور اچھے میچ کی توقع ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں