لکھاری دہلی میں مقیم وکیل اور مصنف ہیں۔
لکھاری دہلی میں مقیم وکیل اور مصنف ہیں۔

24 فروری کو یوکرین پر روسی حملے کو درست ثابت کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ یقیناً اس کے پیچھے ایک تاریخ ضرور ہے لیکن تاریخ اس غلط کام کا جواز فراہم نہیں کرتی۔

ہم صرف امید کرسکتے ہے کہ یوکرین پر روس کا حملہ جلد ختم ہوجائے۔ اگر کوئی تنازعہ جلد ختم نہیں ہوتا تو اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

اس بحران کی جڑیں فروری 1990ء میں کی گئی غلطیوں میں ملتی ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب جرمنی کے اتحاد پر بات چیت ہورہی تھی۔ اس وقت کے روسی رہنما میخائل گورباچوف دہائیوں سے جاری سرد جنگ کے خاتمے کے لیے پُرعزم تھے۔ لیکن امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش اسے روس کی کمزوری سمجھے جبکہ ایسا نہیں تھا۔ ہنری کسنجر نے اس حوالے سے کہا تھا کہ امریکی رہنماؤں کا خیال تھا کہ ’ہم نے سرد جنگ جیت لی ہے‘۔

مزید پڑھیے: وزیرِاعظم کا دورہ ماسکو: کیا پاکستان نے اپنا رخ بدلنے کا فیصلہ کرلیا؟

صدر بش نے محسوس کیا کہ مغربی طاقتوں کے رہنما کے طور پر امریکا نے فتح حاصل کی ہے۔ گورباچوف کو بظاہر یقین دلایا گیا تھا کہ نیٹو مشرق کی طرف پیش قدمی نہیں کرے گا لیکن صدر ایچ ڈبلیو بش نے انہیں دھوکا دیا۔

موجودہ بحران کے پیچھے یہی دھوکا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم یوکرین پر روسی حملے کو قبول کرلیں۔ اس حملے کے اثرات اور نتائج طویل عرصے تک محسوس کیے جائیں گے۔

ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی کے پروفیسر جوشوا آر اِٹزکووٹز سفرنسن (Joshua R. Itzkowitz Shifrinson) نے 1990ء میں گورباچوف اور ایچ ڈبلیو بش کے درمیان ہونے والی بات چیت کے ریکارڈ کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ ان کے مطابق ’سفارتی ریکارڈ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سوویت یونین کو متعدد مرتبہ اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ نیٹو مشرقی یورپ کی جانب پیش قدمی نہیں کرے گا۔

’سوویت یونین سے بات چیت کرکے جرمنی کے اتحاد، معاہدے کی تشکیل اور سوویت یونین کی جانب سے ستمبر 1990ء میں معاہدے پر رضامندی کی صورت میں سفارتی معاملات آگے بڑھتے گئے اور اس دوران یہ وعدے مذاکرات کا مرکز رہے۔

’اس بات کے ٹھوس ثبوت بھی ہیں کہ امریکا نے 1990ء کے مذاکرات میں سوویت یونین کو گمراہ کیا۔ امریکی پالیسی ساز سوویت یونین سے سرد جنگ کے بعد نیٹو کو محدود رکھنے کی بات کرتے رہے، جبکہ نجی طور پر وہ سرد جنگ کے بعد امریکی زیرِ تسلط ایک نئے نظام کے لیے منصوبہ بندی کر رہے تھے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اقدامات بھی کر رہے تھے۔

’1990ء میں امریکی پالیسی سازوں نے سوویت یونین کو یقین دہانی کروائی کہ نیٹو کو وسعت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ سوویت یونین کو سرد جنگ کے بعد کے یورپ میں اسٹریٹیجک طور پر الگ تھلگ نہیں کیا جائے گا، نیٹو سوویت یونین کی کمزوریوں کا فائدہ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ سرد جنگ کے بعد بننے والا یورپ کا سیکیورٹی ڈھانچہ مشترکہ ہوگا۔ اس کے نتیجے میں ہونے والی سودے بازی میں یورپی سلامتی کے مستقبل کے بارے میں بات چیت کو بنیاد بنایا گیا تاکہ سرد جنگ کے بعد نیٹو کے کردار اور امریکا کے غلبے کی حدود کو ظاہر کرتے ہوئے عدم توسیع کے معاہدے کو واضح کیا جاسکے‘۔

مزید پڑھیے: زوالِ سوویت یونین

9 فروری 1990ء کو امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جیمز بیکر نے گورباچوف کو صورتحال کے بارے میں امریکی نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔ اس کے اہم نکات یہ تھے:

پہلا نکتہ: مشرقی اور مغربی جرمنی کے ایک دوسرے کے قریب آنے کا عمل توقع سے زیادہ تیز ہے۔ وہ قوتیں جنہوں نے جرمن ریاستوں کے تیز ترین ممکنہ اتحاد پر اصرار کیا ہوگا وہ ووکسکامر (Volkskammer) انتخابات جیت جائیں گی۔ اس مقصد کے حصول کے فوری بعد جرمن-جرمن مذاکرات شروع ہوں گے۔

دوسرا نکتہ: ’اس اتحاد کے خارجی پہلوؤں سے متعلق مسائل سے نمٹنے کا طریقہ کار‘ اسی وقت وضع کیا جائے گا جب جرمن ریاستیں اندرونی معاملات پر بات چیت شروع کریں گی۔ یہ ایک ’2 جمع 4‘ میکانزم ہونا چاہیے (یعنی 2 جرمن ریاستیں آپس میں تمام مسائل پر بات کریں گی جب کہ 4 فاتح ممالک ضرورت پڑنے پر اس میں شامل ہوں گے)۔

تیسرا نکتہ: مغرب کے حمایت یافتہ امریکا نے جرمنی کی غیر جانبدار حیثیت پر اعتراض کیا۔ امریکا یورپ سے نکلنا نہیں چاہتا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کی فوجیں جرمن سرزمین پر موجود رہیں گی۔

چوتھا نکتہ: اگر متحدہ جرمنی نیٹو کا حصہ رہتا ہے تو ’مشرق کی جانب نیٹو کی عملداری اور افواج میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا‘۔

جیمز بیکر نے اس میں یہ اضافہ بھی کیا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ '2 جمع 4' میکانزم کے فریم ورک کے اندر ہونے والی مشاورت اور بات چیت سے اس بات کی ضمانت ملنی چاہیے کہ جرمنی کا اتحاد مشرق کی طرف نیٹو کی توسیع کا سبب نہیں بنے گا‘۔

مزید پڑھیے: صدر پیوٹن کی زندگی کے 7 دلچسپ پہلو

صدر بش کے بعد آنے والے امریکی صدر بل کلنٹن نے نیٹو کی توسیع کی کوششیں کیں۔ رچرڈ این ہاس نے راقم کو بتایا کہ اس فیصلے سے قبل بہت زیادہ بحث نہیں کی گئی تھی۔ جارج ایف کینن نے اس کی مخلافت کی تھی۔ یہ ایک حماقت تھی جس کے طویل مدتی اثرات ہونے تھے۔

صدر ولادیمیر پیوٹن کے موجودہ طرزِ عمل کی بنیاد 2014ء میں یوکرین میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہرے ہیں جس کی وجہ سے روس نواز رہنما وکٹر یانوکووچ (Viktor Yanukovych) کو معزول کردیا گیا تھا اور اس کے بعد یوکرین کی یورپی یونین اور نیٹو سے قربت بڑھنے لگی تھی۔ بہرحال یہ کسی بھی طرح روس کے حملے کا جواز نہیں بن سکتا۔

اب اس بحران نے شدت اختیار کرلی ہے اور عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ اس بحران کو حل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ لیکن اس کا جلد حل ناگزیر ہے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ اسے حل کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔


یہ مضمون 26 فروری 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں