گھبراہٹ جیسے عام مسئلے پر قابو پانے کا آسان نسخہ

28 فروری 2022
انزائٹی کا سامنا متعدد افراد کو ہوتا ہے — شٹر اسٹاک فوٹو
انزائٹی کا سامنا متعدد افراد کو ہوتا ہے — شٹر اسٹاک فوٹو

دنیا بھر کے لاکھوں افراد زندگی میں کبھی نہ کبھی تناؤ، الجھن اور کسی بدترین کے خوف کا سامنا کرتے ہیں۔

صرف آسٹریلیا میں ہی 32 لاکھ افراد کو انزائٹی یا گھبراہٹ سے منسلک مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور حالیہ برسوں میں 15 سے 24 سال کی عمر کے افراد میں ان مسائل کی شرح بڑھی ہے۔

انزائٹی یا گھبراہٹ ایک عام انسانی احساس ہے۔ ہم سب کو اس کا تجربہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی مشکل یا کڑے وقت سے گذرتے ہیں۔

خطرات سے بچاؤ، چوکنا ہونے اور مسائل کا سامنا کرنے میںعام طور پر خوف اور گھبراہٹ مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ تاہم اگر یہ احساسات شدید ہوجائیں یا بہت عرصے تک رہیں تو یہ ہمیں ان کاموں سے روک سکتے ہیں جو ہم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہماری زندگی تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔

مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ گھبراہٹ سے بچنا بہت آسان ہے بس آپ کو بس پانی کے استعمال میں اضافہ کرنا ہوگا؟

جی ہاں آسٹریلیا کے وفاقی طبی حکام نے حال ہی میں عندیہ دیا تھا کہ پانی کے استعمال سے گھبراہٹ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے جس پر آن لائن لوگوں نے شکوک و شبہات بھی ظاہر کیے تھے۔

مگر طبی شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ پانی اور ہائیڈریشن گھبراہٹ کی علامات کی روک تھام یا ان کو کنٹرول کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔

پانی مفید کیوں؟

گرم موسم میں ٹھنڈے پانی سے ہم سب ہی لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے جسم ہمیں اس بات سے آگاہ کرنے کے لیے ڈیزائن ہوئے ہیں کہ کس وقت ہمیں پانی کی ضرورت ہے۔

کچھ سال قبل طبی ماہرین کے ایک گروپ نے پانی کے صحت پر متعدد اثرات پر توجہ مرکوز کی اور نتائج نے ان کو دنگ کردیا۔

انہوں نے دریافت کیا کہ جسم میں پانی کی کمی یا ڈی ہائیڈریشن کے نتیجے میں منفی جذبات جیسے غصہ، چڑچڑے پن، الجھن اور تناؤ کے ساتھ ساتھ تھکاوٹ کے احساس میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

ایک ٹرائل میں دریافت ہوا کہ پانی کی معمولی کمی سے بھی لوگوں میں گھبراہٹ اور تھکاوٹ جیسے احساسات بڑھ گئے۔

محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ جو لوگ روزمرہ میں زیادہ پانی پینے کے عادی ہوتے ہیں، اگر ان کا پانی کا استعمال کم ہوجائے تو وہ کم پرسکون اور زیادہ تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں جو افراد زیادہ پانی پیتے ہیں وہ زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں، چاہے روزمرہ میں وہ جتنا مرضی پانی پیتے ہوں۔

ایک اور بڑی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ روزانہ 5 یا اس سے زیادہ کپ پانی پینے سے ڈپریشن اور گھبراہٹ کا خطرہ کم ہوتا ہے جبکہ دن بھر میں 2 کب سے کم پانی پینے والوں میں یہ خطرہ دگنا بڑھ جاتا ہے۔

پانی کی کمی اور بچوں میں گھبراہٹ کے درمیان تعلق کا مشاہدہ بھی ہوا ہے جبکہ پانی کی کمی ہماری نیند پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔

ناقص نیند گھبراہٹ کی علامات کی شدت کو بڑھانے کا باعث بنتی ہے۔

دماغ پر اثرات

ہمارے دماغ کے 75 فیصد پانی پر مبنی ہیں اور ڈی ہائیڈریشن سے دماغ میں توانائی بننے کا عمل گھٹ جاتا ہے اور دماغی ساخت میں تبدیلی آسکتی ہے۔

یعنی دماغ سست ہوجاتا ہے اور اپنے افعال درست طریقے سے سرانجام نہیں دے پاتا۔

اگر پانی کی بہت زیادہ کمی ہو تو دماغی خلیات اپنے افعال سرانجام نہیں دے پاتے اور دماغ کو کام مکمل کرنے میں زیادہ سکت محنت کرنا پڑتی ہے۔

ہمارے خلیات پانی کی کمی کو بقا کے خطرے کے طور پر شناخت کرتے ہیں جس سے گھبراہٹ کا احساس بڑھتا ہے۔

دماغی خلیات کے درمیان رابطے کا کام کرنے والے ایک کیمیکل سیروٹونین مزاج اور جذبات کو مستحکم رکھنے کا کام کرتا ہے، مگر پانی کی کمی کے دوران اس کے بننے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

درحقیقت پانی کی معمولی کمی سے بھی جسم میں تناؤ بڑھانے والے ہارمون کورٹیسول کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے جو متعدد ذہنی عوارض بشمول گھبراہٹ میں کردار ادا کرتا ہے۔

ڈاکٹر سے کب رجوع کریں؟

اب تک دستیاب شواہد کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ طرز زندگی مین تبدیلیوں جیسے پانی کی مقدار میں اضافے، اچھی غذا، جسمانی سرگرمیوں اور نیند سے لوگوں کی ذہنی صحت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

اسی طرح شواہد سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ پانی کی کمی ہمارے مزاج پر اثرانداز ہوتی ہے۔

مگر یہ بات مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ متعدد عناصر لوگوں میں گھبراہٹ کی شرح پر اثرانداز ہوتے ہیں، کوئی ایک چیز مکمل طور پر ان جذبات کو ختم نہیں کرسکتی۔

یہ بات ان افراد کے لیے خاص طور پر زیادہ درست ہے جن کو بہت زیادہ گھبراہٹ کا تجربہ ہوتا ہے، ان کے لیے زیادہ پانی پینا اتنا مددگار نہیں ہوگا بلکہ کسی معالج سے رجوع کرنا بہتر ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں