طالبان کے اہم رہنما سراج الدین حقانی پہلی مرتبہ منظر عام پر آگئے

اپ ڈیٹ 05 مارچ 2022
سراج الدین حقانی نے پولیس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب میں شرکت کی — تصویر طالبان کی جانب سے جاری کی گئی
سراج الدین حقانی نے پولیس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب میں شرکت کی — تصویر طالبان کی جانب سے جاری کی گئی

افغانستان کے عبوری وزیر داخلہ اور طالبان کے سینئر رہنما سراج الدین حقانی پہلی مرتبہ منظر عام پر آگئے جہاں وہ سرکاری تقریب میں شریک ہوئے اور پہلی مرتبہ ان کی تصاویر بھی سامنے آگئیں جبکہ وہ تاحال امریکا کو مطلوب افراد کی فہرست کا حصہ ہیں۔

امریکا کی مطلوب افراد کی فہرست میں سراج الدین حقانی کی دھندلی تصویر ہے اور اس سے قبل گزشتہ برس اگست میں طالبان کی واپسی سے اب تک صرف ایک تصویر دستیاب ہے جس میں ان کا چہرہ واضح نہیں۔

مزید پڑھیں: طالبان کے سپریم رہنما قندھار میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آگئے

سراج الدین حقانی ہفتے کو کابل میں عوام کے درمیان نظر آئے جب وہ افغان پولیس اہلکاروں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب میں شریک ہوئے۔

پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ‘آپ کے اطمینان اور آپ کی اعتماد سازی کے لیے، میں آپ کے ساتھ میڈیا اور عوام کے سامنے آیا ہوں’۔

سراج الدین حقانی کی تصویر طالبان کی جانب سے جاری کی گئی
سراج الدین حقانی کی تصویر طالبان کی جانب سے جاری کی گئی

پولیس اہلکاروں کو انہوں نے کہا کہ ‘میں میڈیا کے سامنے پہلی دفعہ آیا ہوں کیونکہ آپ کی ساکھ میرے لیے اہمیت رکھتی ہے’۔

انہوں نے افسران سے مخاطب ہو کر کہا کہ ‘اپنی ڈیوٹی انجام دیں اور عوام کے ساتھ رحمدلی اور شفقت سے پیش آئیں’۔

افغان عبوری وزیر داخلہ کا یہ بیان مشرقی صوبے کنڑ میں دو روز قبل ایک نوجوان کے مبینہ قتل کے بعد آیا ہے جہاں اطلاع کے مطابق مقتول اپنے بھائی کی شادی پر موسیقی چلا رہا تھا۔

کنڑ میں پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں طالبان کے اہلکار شامل تھے، جنہیں گرفتار کرلیا گیا اور شرعی قوانین کے مطابق ان کو سزا دی جائے گی۔

کابل میں منعقدہ پولیس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ افغانستان کے قومی ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کی گئی۔

سراج الدین حقانی نے افغانستان کے عوام سے درخواست کی کہ جو لوگ ملک سے باہر چلے گئے ہیں وہ واپس آجائیں۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کی ایلچی کی طالبان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے ملاقات

تقریب کے بعد طالبان عہدیداروں کی جانب سے سراج الدین حقانی کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کی گئیں، اس سے قبل ان کی صرف ایک تصویر جاری کی جاتی تھی جس میں ان کا چہرہ نظر نہیں آتا تھا یا ڈیجیٹلی دھندلی ہوتی تھی۔

پولیس کی تقریب میں شرکت کے دوران سراج الدین حقانی طالبان کے دیگر سینئر رہنماؤں جیسے لباس میں نظر آئے، گھنی داڑھی رکھنے والے طالبان رہنما نے سیاہ رنگ کی پگڑی باندھی ہوئی تھی اور سفید رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔

یاد رہے کہ سراج الدین حقانی طالبان کے ان چند سینئر رہنماؤں میں شامل تھے جو گزشتہ برس اگست میں شروع میں کابل میں داخل ہوئے تھے لیکن گزشتہ کئی مہینوں تک سامنے نہیں آئے۔

اس دوران وہ غیر ملکی مہمانوں اور طالبان عہدیداروں سے بھی ملاقاتین کرتے رہے ہیں لیکن ان ملاقاتوں کی تصاویر دھندلی ہوتی تھیں، ایک مرتبہ انٹرویو کے لیے ٹی وی میں بھی نظر آئے لیکن ان کا چہرہ نہیں دکھایا گیا تھا۔

واضح رہے کہ سراج الدین حقانی اپنے گروپ ‘حقانی نیٹ ورک’ کے سربراہ بھی ہیں، جس کو امریکا کی جانب سے دہشت گرد گروپ قرار دیا گیا ہے کیونکہ افغانستان میں 20 سالہ طویل جنگ کے دوران غیر ملکی اور افغانستان کی فورسز پر بدترین حملے کرتے رہے ہیں۔

دوسری جانب طالبان کا اصرار ہے کہ ان کے درمیان کوئی الگ گروپ نہیں ہے۔

سراج الدین حقانی، امریکا کے فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن (ایف بی آئی) کو مطلوب ہیں اور امریکا نے ان کی گرفتاری کے لیے اطلاع دینے والے کو ایک کروڑ ڈالر انعام بھی رکھا ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: ’سراج الدین حقانی کے بھائی پر امریکی پابندیاں‘

سراج الدین حقانی، سوویت یونین کے خلاف 1980 کی دہائی میں لڑنے والے مجاہدین کے رہنما جلال الدین حقانی کے بیٹے ہیں، ان کے والد بعد میں طالبان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے اور طالبان کی گزشتہ حکومت میں وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

افغان طالبان کے نائب سربراہ کی حیثیت سے سراج الدین حقانی کو طالبان اور ان سے منسلک گروپس ‘خلیفہ’ کہتے ہیں۔

ان کے چچا خلیل الرحمٰن بھی امریکا کو مطلوب فہرست میں شامل ہیں اور اس وقت طالبان کی عبوری حکومت میں مہاجرین کے وزیر ہیں۔

خلیل الرحمٰن بھی سیکیورٹی خطرات اور کابل میں امریکی ڈرونز کی معمول کی پروازوں کے پیش نظر عوام کے درمیان نظر نہیں آتے ہیں۔

افغانستان میں اب طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخونزادہ واحد رہنما ہیں جو عوام کے سامنے نہیں آئے تاہم وہ اس وقت قندھار طالبان رہنماؤں کے ساتھ مسلسل ملاقاتیں کر رہے ہیں، لیکن کابل میں واپسی کے بعد اب تک میڈیا کو ان کی تصویر یا ویڈیو نہیں دی گئی۔

ہیبت اللہ اخونزادہ سے گزشتہ ماہ ملاقات کرنے والے طالبان کے ایک رہنما نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ان کے سربراہ مستقل کابینہ کی تشکیل کے لیے تجاویز پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں، جو طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کروانے کے لیے ایک قدم کے طور دیکھا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ امریکا اور افغان عہدیداروں نے حقانی نیٹ ورک پر 2017 میں بدترین ٹرک دھماکے کا الزام عائد کیا تھا، جس کو اس وقت کے عہدیداروں نے افغانستان کے دارالحکومت میں سب سے بڑا حملہ قرار دیا تھا۔

افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے اس وقت کہا تھا کہ جرمن سفارت خانے کے باہر ہونے والے ٹرک حملے میں 150 افراد جاں بحق ہوئے اور 300 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔

کابل میں ہونے والے اس حملے کو 2001 میں امریکی مداخلت کے بعد بدترین خون ریز حملہ قرار دیا جاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں