وزیراعظم کا دورہ کراچی،ایم کیو ایم رہنماؤں سے تحریک عدم اعتماد پر تبادلہ خیال

اپ ڈیٹ 10 مارچ 2022
ایم کیو ایم کے مرکز بہادرآباد میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے وزیراعظم کا استقبال کیا—فوٹو: امتیاز علی
ایم کیو ایم کے مرکز بہادرآباد میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے وزیراعظم کا استقبال کیا—فوٹو: امتیاز علی

وزیر اعظم عمران خان نے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم-پی) کے مرکز بہادر آباد میں ایم کیو ایم رہنماؤں سے ملاقات کی جس میں تحریک عدم اعتماد پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروائے جانے کے ایک روز بعد وفاقی وزرا کے ہمراہ وزیر اعظم اپنے اتحادیوں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) سے ملاقاتیں کرنے کے لیے کراچی پہنچے۔

وزیر اعظم عمران خان ایم کیو ایم پاکستان (ایم کیو ایم-پی) کی قیادت سے ملاقات کے لیے پارٹی کے عارضی مرکز بہادر آباد پہنچے۔

ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے وزیر اعظم کا استقبال کیا۔

وزیر اعظم کے ہمراہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر برائے بحری امور علی زیدی اور گورنر سندھ عمران اسمٰعیل موجود تھے، وزیر اعظم کا 3 ماہ میں کراچی کا یہ دوسرا دورہ ہے۔

بہادر آباد میں ایم کیو ایم قیادت سے ملاقات کے بعد وزیراعظم گورنر ہاؤس روانہ ہوئے جہاں انہوں نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) رہنماؤں سے ملاقات کی۔

وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم صوبہ سندھ میں پارٹی کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے عوامی نمائندوں، پی ٹی آئی کے منتخب اراکین سندھ اسمبلی اور پارٹی کی صوبائی و ڈویژنل سطح کی قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے۔

پی ٹی آئی سندھ کی قیادت نے کہا کہ وزیر اعظم اپنے ایک روزہ دورے کے دوران حکومتی اتحادیوں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی

پارٹی کے ترجمان ایم پی اے ارسلان تاج نے کہا کہ وزیراعظم پارٹی کی سندھ ایڈوائزری کونسل کے اجلاس کی صدارت بھی کریں گے اور پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں سے خطاب بھی کریں گے۔

کراچی کے دورے کے موقع پر سیاسی مصروفیات کے علاوہ وزیر اعظم پی ٹی آئی حکومت کے فلیگ شپ پروگرام کے 3 سال مکمل ہونے پر مستحقین میں احساس کارڈ بھی تقسیم کریں گے۔

ایک بیان کے مطابق تقریب گورنر ہاؤس میں ہوگی، وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے تخفیف غربت اور سماجی تحفظ سینیٹر ڈاکٹر ثانیہ نشتر انہیں سندھ میں احساس کے انسداد غربت پروگرام پر بریفنگ دیں گی۔

’حکومت کے اتحادی ضرور ہیں لیکن آپشنز کھلے ہیں‘

وزیراعظم سے ملاقات کے بعد ایم کیو ایم رہنما عامر خان نے میڈیا سے گفتگو کی—فوٹو:ڈان نیوز
وزیراعظم سے ملاقات کے بعد ایم کیو ایم رہنما عامر خان نے میڈیا سے گفتگو کی—فوٹو:ڈان نیوز

وزیراعظم سے ملاقات کے بعد ایم کیو ایم رہنما عامر خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سے پوری ملاقات میں عدم اعتماد کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ساڑھے 3 سال بعد وزیر اعظم کا آنا خوش آئند ہے، ان سے ملاقات میں کوئی شکوے شکایتیں نہیں کیں، خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی۔

عامر خان نے کہا کہ ہم حکومت کے اتحادی ضرور ہیں لیکن ہمارے پاس تمام آپشنز کھلے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: تحریک عدم اعتماد: اپوزیشن کا حکومتی اتحادیوں کو ’بڑی پیشکش‘ کرنے کا ارادہ

ان کا کہنا تھا کہ ملاقات کے دوران نہ انہوں نے کوئی یقین دہانی مانگی نہ ہم نے انہیں کوئی یقین دہانی کروائی۔

عدم اعتماد سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جو بھی فیصلہ ہوگا پارٹی مشاورت سے طے کریں گے، ملاقات میں کی گئی تمام باتیں نہیں بتا سکتا۔

ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے کسی اپوزیشن جماعت سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا تحریک عدم اعتماد پر اہم بیان

ادھر ملاقات کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وزیر اعظم ملاقات کے لیے آئے تھے، انہیں چائے پلائی۔

ایک سوال کے جواب میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیو ایم کو سیاسی دفاتر کی ضرورت نہیں، نائن زیرو ہمارا ہے ہی نہیں ان سے کیا مانگیں۔

عدم اعتماد سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد کو چھوڑیں، ہمیں نظام پر ہی اعتماد نہیں۔

تحریک عدم اعتماد

گزشتہ روز اپوزیشن نے بالآخر حکومتی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرائی تھی۔

اپوزیشن نے دستاویزات کے 2 سیٹ جمع کرائے ہیں، ایک آئین کے آرٹیکل 54 کے تحت قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے کی وجہ سے ریکوزیشن کرنے کے لیے اور دوسری قرارداد میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کیا گیا۔

آرٹیکل 54 کے مطابق اگر کم از کم 25 فیصد ارکان اس پر دستخط کریں تو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جاسکتا ہے، دستخط کے بعد اسپیکر کے پاس اجلاس بلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ 14 دن کا وقت ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کا مسودہ تیار کرلیا‘

پیپلز پارٹی کے قانون ساز نوید قمر نے بتایا تھا کہ ریکوزیشن پر 140 ایم این ایز کے دستخط تھے۔

آئین کے آرٹیکل 95 اور ہاؤس کے طریقہ کار کے قواعد کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پر قومی اسمبلی کے کم از کم 20 فیصد ارکان کے دستخط ہونے چاہیے، جس کا مطلب ہے کہ ووٹنگ کے لیے کم از کم 68 ارکان کے دستخط ہونے چاہیے۔

قواعد کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے کے بعد سیکریٹری عدم اعتماد کی قرارداد کا نوٹس بھیجے گا جسے اگلے دن پیش کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: علیم خان ترین گروپ میں شامل، 'تحریک عدم اعتماد آئی تو مل کر فیصلہ کریں گے'

قواعد کے مطابق جس دن قرارداد پیش کی جاتی ہے اس کے بعد 3 دن گزر جانے سے پہلے یا 7 دن بعد اس پر ووٹنگ نہیں کی جائے گی۔

لہٰذا اسپیکر کو 22 مارچ تک ایوان زیریں کا اجلاس بلانا ہوگا، جبکہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 26 مارچ سے 30 مارچ کے درمیان ہوسکتی ہے۔

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے مشترکہ اپوزیشن کو سادہ اکثریت درکار ہے، یعنی اسے کُل 342 میں سے 172 ایم این ایز کی حمایت درکار ہے۔

ایوان میں اس وقت اپوزیشن کے پاس حکومت کے 179 کے مقابلے میں کل 162 ارکان ہیں، تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سمیت اپوزیشن رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ان کو تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے کچھ حکومتی ایم این ایز سمیت 180 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں