ماحولیاتی اثرات کے جائزے میں شہریوں نے ملیر ایکسپریس وے کی مخالفت کردی

اپ ڈیٹ 10 مارچ 2022
ملیر ایکسپریس وے منصوبہ کے پی ٹی انٹرچینج، قیوم آباد سے شروع ہو کر کاٹھور کے قریب کراچی-حیدرآباد موٹروے پر ختم ہوگا—فوٹو:ملیر ایکسپریس وے آئی ای اے رپورٹ
ملیر ایکسپریس وے منصوبہ کے پی ٹی انٹرچینج، قیوم آباد سے شروع ہو کر کاٹھور کے قریب کراچی-حیدرآباد موٹروے پر ختم ہوگا—فوٹو:ملیر ایکسپریس وے آئی ای اے رپورٹ

ملیر ایکسپریس وے مجوزہ منصوبے کے قریب رہنے والے رہائشیوں نے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (سیپا) کی جانب سے ماحولیاتی اثرات کی تشخیصی (ای آئی اے) رپورٹ پر بحث کے لیے منعقدہ عوامی سماعت میں صوبائی حکومت کے منصوبے کو مسترد کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دسمبر 2020 میں 27 ارب 50 کروڑ روپے کی لاگت سے کے 39 کلومیٹر طویل اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا، منصوبہ کے پی ٹی انٹرچینج، قیوم آباد سے شروع ہو کر کاٹھور کے قریب کراچی-حیدرآباد موٹروے پر ختم ہوگا۔

اس منصوبے کی ای آئی اے رپورٹ نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان (نیسپاک) اور ایک نجی کنسلٹنسی فرم ای ایم سی پاکستان نے تیار کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:پیپلز پارٹی کے تمام اراکین پارلیمنٹ نے استعفے پہنچا دیے ہیں، بلاول بھٹو

عوامی سماعت میں موجود ملیر کے رہائشیوں کی جانب سے منصوبے کے خلاف 'ملیر ایکسپریس وے نا منظور'، 'ملیر ایکسپریس وے ناقابل قبول'، 'ملیر کی تباہی نہ منظور'، 'ملیر کی تباہی ناقابل قبول' اور 'ماحول کی تباہی ناقابل قبول' جیسے نعرے لگائے جانے پر سرکاری نمائندے ان کے سوالات کا جواب دیے بغیر چلے گئے۔

ای آئی اے رپورٹ پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے شہریوں نے سماعت کو محض ایک مذاق قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی صرف دستاویز کے لیے رسمی طور پر منعقد کی گئی تھی۔

انہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں شامل حقائق کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سماجی کارکن اور وائلڈ لائف فوٹوگرافر سلمان بلوچ نے دعویٰ کیا کہ سیپا کی پیش کردہ رپورٹ حقیقت سے بہت دور ہے۔

مزید پڑھیں:پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ شروع، 'اسلام آباد پہنچ کر حکومت پر حملہ کریں گے'

سیپا کی جانب سے فراہم کردہ ماحولیاتی اعداد و شمار کے مطابق علاقے میں اتنی تعداد میں کسی قسم کے کوئی جانور، پرندے یا حشرات الارض نہیں ہیں جس سے ماحول کے خدشات پیدا ہوں، کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں 10 سے زیادہ اقسام کے ممالیہ اور 12 اقسام کے رینگنے والے جانور پائے جاتے ہیں جن میں سانپ بھی شامل ہیں۔

رہائشیوں کا کہنا تھا کہ سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014 کے سیکشن 17(1) کے مطابق کوئی بھی تعمیراتی کام اس وقت تک شروع نہیں کی جا سکتا جب تک کہ منصوبہ سازوں کو ای آئی اے رپورٹ نہ مل جائے لیکن اس منصوبے کے 15 کلومیٹر سے زیادہ پر کام شروع ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے 11 کھرب 13 ارب روپے کہاں خرچ ہوں گے؟

انہوں نے الزام لگایا کہ زمین کی سطح کو برابر کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے اور گرین بیلٹ کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

الزامات کا جواب دیتے ہوئے ملیر ایکسپریس وے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نیاز سومرو کا کہنا تھا کہ منصوبے سے کوئی گرین بیلٹ متاثر نہیں ہو رہی اور سائٹ پر مشینری ملبہ اور صنعتی فضلہ ہٹانے کے لیے موجود ہے۔

غیر سرکاری تنظیم کلائمیٹ ایکشن پاکستان کے ایک رکن عادل ایوب نے اسفالٹ اور تعمیرات میں کنکریٹ کے استعمال کی وجہ سے ہونے والی ماحولیاتی تباہی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ کنکریٹ ڈھانچے کی وجہ سے شہر میں ہیٹ ویوز آنے کا بہت زیادہ امکان ہے جس سے کراچی کا مجموعی ماحول متاثر ہو سکتا ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

ٓKHAN Mar 10, 2022 08:11pm
سرکلر ریلوے اور بس سروس یقیناًعوام کی ضرورت ہے تاہم کراچی کی اصل اہمیت بندرگاہوں کی وجہ سے ہے، بندرگاہوں تک ٹریفک کی بلاتعطل رسائی کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جارہی ہے، سندھ حکومت کا مجوزہ ایکسپرس ہائی وے اطلاعات کے مطابق صرف ڈیفنس /بحریہ کے رہائشیوں کے لیے ہے، اگر اس میں لیاری ایکسپریس وے کی طرح ہیوی ٹریفک کو شامل نہیں کیا گیا تویہ عوام کے ساتھ بڑا ظلم ہوگا۔ مجوزہ ملیر ایکسپریس وے قیوم آباد سے آگے کیماڑی تک تیل کی لائنوں پر پل تعمیر ہوجانے کے بعد کراچی کی دونوں بندرگاہوں اور کورنگی انڈسٹریل ایریا سے سامان / کنٹینرز کی ملک و بیرون ملک آمدورفت کا مختصر ترین راستہ ہے۔ اس وقت عوام شیر شاہ سے لے کر ماڑی پور روڈ ،ٹاور ، ایم اے جناح روڈکیماڑی پر تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ٹریفک جام کا سامنا کررہے ہیں ، ۔ لہذا ایکسپریس وے کی منصوبہ بندی میں ہیوی ٹریفک کو لازمی شامل کیا جائے ورنہ مستقبل قریب میں کنٹینرز لدی گاڑیوں کی وجہ سے پورا کراچی شہر شدید ٹریفک جام کے مسئلے سے دوچار ہوگا۔ صوبائی اور وفاقی حکومت پورے ملک کو مدنظر رکھ کر عوام کے مفاد میں اس حوالے سے درست فیصلہ کریں۔
ٓKHAN Mar 11, 2022 08:10am
سرکلر ریلوے اور بس سروس یقیناًعوام کی ضرورت ہے تاہم کراچی کی اصل اہمیت بندرگاہوں کی وجہ سے ہے، بندرگاہوں تک ٹریفک کی بلاتعطل رسائی کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جارہی ہے، سندھ حکومت کا مجوزہ ایکسپرس ہائی وے اطلاعات کے مطابق صرف ڈیفنس /بحریہ کے رہائشیوں کے لیے ہے، اگر اس میں لیاری ایکسپریس وے کی طرح ہیوی ٹریفک کو شامل نہیں کیا گیا تویہ عوام کے ساتھ بڑا ظلم ہوگا۔ مجوزہ ملیر ایکسپریس وے قیوم آباد سے آگے کیماڑی تک تیل کی لائنوں پر پل تعمیر ہوجانے کے بعد کراچی کی دونوں بندرگاہوں اور کورنگی انڈسٹریل ایریا سے سامان / کنٹینرز کی ملک و بیرون ملک آمدورفت کا مختصر ترین راستہ ہے۔ اس وقت عوام شیر شاہ سے لے کر ماڑی پور روڈ ،ٹاور ، ایم اے جناح روڈکیماڑی پر تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ٹریفک جام کا سامنا کررہے ہیں ، ۔ لہذا ایکسپریس وے کی منصوبہ بندی میں ہیوی ٹریفک کو لازمی شامل کیا جائے ورنہ مستقبل قریب میں کنٹینرز لدی گاڑیوں کی وجہ سے پورا کراچی شہر شدید ٹریفک جام کے مسئلے سے دوچار ہوگا۔ صوبائی اور وفاقی حکومت پورے ملک کو مدنظر رکھ کر عوام کے مفاد میں اس حوالے سے درست فیصلہ کریں۔