بھارت: انتہاپسند ہندو رہنماؤں کا مزید ریاستوں میں بھی 'حجاب پر پابندی' کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2022
سخت گیر ہندو رہنماؤں نے کہا ہے کہ  ہم ملک کے تعلیمی اداروں میں مذہبی لباس نہیں دیکھنا چاہتے—فوٹو: اے پی
سخت گیر ہندو رہنماؤں نے کہا ہے کہ ہم ملک کے تعلیمی اداروں میں مذہبی لباس نہیں دیکھنا چاہتے—فوٹو: اے پی

بھارت کی ریاست کرناٹک میں ایک عدالت کی جانب سے سر پر پہننے کے روایتی اسلامی اسکارف پر پابندی برقرار رکھنے کے بعد سخت گیر ہندو گروہ نے مزید ریاستوں میں کلاس رومز میں حجاب پہننے پر پابندی کا مطالبہ کردیا۔

انتہا پسندوں کے اس مطالبے پر ان مسلمان طلبہ کو تشویش ہے جنہوں نے حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کا جنوبی ریاست کی جانب سے فروری میں حجاب پر پابندی کی حمایت کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اعلیٰ وفاقی وزرا نے بھی خیر مقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ طلبہ کو کلاس میں مذہبی لباس پہننے سے گریز کرنا چاہیے۔

بھارت میں یونیفارم کے بارے میں قومی سطح پر کوئی واضح اصول اور ہدایات نہیں ہیں اور ریاستیں اکثر یہ فیصلہ کرنے کا اختیار اسکولوں پر چھوڑ دیتی ہیں کہ طلبہ کو کیا پہننا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:حجاب پر پابندی برقرار رکھنے کا بھارتی عدالت کا فیصلہ 'مایوس کن' قرار

ہندو فرسٹ گروپ اکھیل بھارت ہندو مہاسبھا کے صدر رشی ترویدی کا کہنا ہے کہ ہم ایک ہندو قوم ہیں اور ہم ملک کے تعلیمی اداروں میں کسی بھی قسم کا مذہبی لباس نہیں دیکھنا چاہتے، ہم عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پورے ملک میں ایک ہی اصول پر عمل کیا جائے۔

بی جے پی کے زیر اقتدار کرناٹک میں پابندی پر کئی مسلم طلبہ اور والدین نے احتجاج کیا تھا جس کے جواب میں ہندو طلبہ نے جوابی مظاہرے کیے تھے، پابندی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مسلم کمیونٹی کو دبانے کا ایک اور طریقہ ہے جو ہندو اکثریتی بھارت کی ایک ارب 35 کروڑ آبادی کا تقریباً 13 فیصد ہے۔

وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی ) جو کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے منسلک ہے، جو کہ بی جے پی کی بنیادی تنظیم ہے، کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انہوں نے مودی کی آبائی ریاست گجرات میں حجاب پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے اور وہ جلد ہی ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست، اتر پردیش کی حکومت کو بھی اس سلسلے میں خط لکھیں گے، بی جے پی دونوں ریاستوں میں برسراقتدار ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارتی عدالت کا حجاب پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ

وی ایچ پی گجرات کے سیکریٹری اشوک راول کا کہنا تھا کہ دفاعی فورسز، پولیس اور سرکاری دفاتر میں حجاب کی اجازت نہیں ہے تو پھر اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پر اصرار کیوں کیا جا رہا ہے؟ یہ برادریوں کے درمیان کشیدگی بڑھانے کی کوشش ہے۔

گجرات کے وزیر تعلیم جیتو واگھانی نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا جبکہ ایک ریاستی وزیر اور ایک بیوروکریٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اسکولوں میں حجاب پر پابندی کا فوری کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

اتر پردیش میں حالیہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کا کنٹرول برقرار رہا جہاں کے عہدیداروں نے بھی معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی فیصلہ آنے والی نئی انتظامیہ کرے گی۔

ریاست کرناٹک میں عائد کی گئی پابندی عدالت میں چیلنج کرنے والی عائشہ حاجرہ الماس اب اس پابندی کو ختم کرنے کے لیے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے رجوع کرنے پر غور کر رہی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اصل خدشہ یہ ہے کہ حجاب پر پابندی اب قومی سطح پر ہوجائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:حجاب پر پابندی کیخلاف مظاہروں میں شدت، ریاست کرناٹکا میں تمام اسکول بند

18 سالہ لڑکی نے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دسمبر کے اواخر سے اس وقت سے اسکول نہیں گئیں جب انتظامیہ نے مسلم لڑکیوں کو حجاب پہننے سے روک دیا تھا، یہ وہ وقت تھا جب فروری کے اوائل میں ریاست بھر میں پابندی نہیں لگی تھی۔

کرناٹک کے اڈوپی ضلع جہاں سے پابندی عائد کیے جانے کے خلاف احتجاج شروع ہوا تھا، وہاں سے عائشہ حاجرہ الماس کا کہنا ہے کہ ہم شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ ہم ایک ایسے بھارت میں رہ رہے ہیں جہاں اس کے شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کیا جاتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں اپنے لیے لڑ رہی ہوں، اپنی بہنوں کے لیے لڑ رہی ہوں، اپنے مذہب کے لیے لڑ رہی ہوں، مجھے ڈر ہے کہ پورے ملک میں اس طرح کی تبدیلیاں عائد کی جائیں گی لیکن مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں