ججز کی تعیناتی میں عدالتوں کی ضروریات بھی مدنظر رکھنی چاہیے، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 23 مارچ 2022
چیف جسٹس عمر بندیال نے لاہور ہائی کورٹ میں سِول لا میں مہارت رکھنے والے ججوں کی کمی پر روشنی ڈالی — فوٹو: سپریم کورٹ
چیف جسٹس عمر بندیال نے لاہور ہائی کورٹ میں سِول لا میں مہارت رکھنے والے ججوں کی کمی پر روشنی ڈالی — فوٹو: سپریم کورٹ

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ججوں کو اعلیٰ عدالتوں میں تعینات کرتے وقت ان میں مخصوص قابلیت کی موجودگی کے ساتھ ساتھ ان عدالتوں کی ضروریات کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے جہاں ان کا تقرر کیا جانا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ مشاہدہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی رولز کمیٹی کی 9 مارچ کو ہونے والے اجلاس میں کیا جس میں جسٹس مقبول باقر، سابق جج سرمد جلال عثمانی، اٹارنی جنرل فار پاکستان (اے جی پی) خالد جاوید خان اور پاکستان بار کونسل کے نمائندہ اختر حسین نے بھی شرکت کی۔

اجلاس کے دوران چیف جسٹس عمر بندیال نے لاہور ہائی کورٹ میں سِول لا میں مہارت رکھنے والے ججوں کی کمی پر روشنی ڈالی، انہوں نے مزید کہا کہ بینچ کے دیگر 2 ماہرین میں سے ایک اگلے سال ریٹائر ہو جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ممکنہ سیاسی تصادم کا خطرہ: سپریم کورٹ نے 4پارلیمانی جماعتوں کو نوٹسز جاری کردیے

ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس عمر بندیال نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ میں فوجداری قانون میں مہارت رکھنے والے ججوں کی کمی ہے اور ان میں سے چند کے علاوہ باقی سب کو کارپوریٹ، آئینی یا سول معاملات میں مہارت حاصل ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سپریم کورٹ میں جلد ہی 3 اسامیاں خالی ہوں گی، ان میں سے ایک یقینی اور 2 متوقع ہیں۔

کمیشن کے چیئرمین ہونے کے ناطے وہ ہر اسامی پر متعدد نامزدگیاں طلب کریں گے اور امید ہے کہ مناسب رائے کے ساتھ کمیشن کے اراکین بہتر فیصلے کریں گے۔

مزید پڑھیں: جسٹس عمر عطا بندیال نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھالیا

اجلاس کے دوران سابق جج سرمد جلال عثمانی نے ججوں کے تقرر کے لیے انگریزوں کے وضع کردہ معیار کا حوالہ دیا جس کے مطابق ایک جج کو سب سے پہلے اور سب سے آخر میں ایک شریف النفس انسان ہونا چاہیے اور دیگر خوبیاں اس کے مطابق ہوں گی۔

اُس کا رویہ ایک جج جیسا ہونا چاہیے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر ایک کو غور سے سنے اور وکلا کے ساتھ شائستہ برتاؤ رکھنے کی صلاحیت کا مالک ہو۔

سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ جج کو ملکی قوانین کا علم ہونا چاہیے کیونکہ جب تک وہ اسے اچھی طرح سے نہ جانتے ہوں گے اس وقت تک وہ اس پر عمل درآمد نہیں کرا سکیں گے، انہوں نے مزید کہا کہ پہلا معیار اہلیت کے ساتھ دیانت داری ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے جسٹس عمر عطابندیال کی بطور چیف جسٹس منظوری دے دی

سابق جج نے مشورہ دیا کہ جیسے جیسے شفافیت کا مطالبہ بڑھ رہا ہے، تمام چیزیں تحریری طور پر پیش کی جانی چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتے کہ ججوں کے لیے تحریری امتحان ہونا چاہیے کیونکہ یہ سول سروس کی تقرری نہیں ہوتی۔

جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ اجلاس کی توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ مختلف خوبیوں کا جائزہ کیسے لیا جائے تاکہ امیدواروں کی درجہ بندی کے لیے معیارات وضع کیے جا سکیں، جس میں کچھ معروضی پیمائش پر مبنی طریقہ کار بھی شامل ہو۔

مزید پڑھیں: عدالت کے فیصلوں پر تنقید کریں، ججز پر نہیں، جسٹس عمر عطا بندیال

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اصل سوال یہ ہے کہ ان معیارات کو کیسے لاگو کیا جائے، انہوں نے سوال کیا کہ کیا خالی ہونے والے ہر عہدے کے لیے صرف ایک نامزدگی ہونی چاہیے اور کیا نامزدگی چیف جسٹس کی جانب سے ہی ہونی چاہیے یا بار کے نمائندوں سمیت دیگر اراکین کی جانب سے بھی نامزدگی ہونی چاہیے؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ اگر سنیارٹی ایک خودکار معیار نہیں، تو یقیناً ہمیں کچھ معیارات طے کرنے کی ضرورت ہے اور معیار صرف تقابلی تناظر میں ہی طے ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر صرف ایک ہی نام تجویز کیا جائے تو اس کا موازنہ کرنا بہت مشکل ہوگا، خاص طور پر جب معاملہ سپریم کورٹ میں تقرریوں کا ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں