اتحادیوں کی راہیں بدلنے کی اطلاعات سے حکومت پریشان

24 مارچ 2022
وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ  اتحادیوں نے اپوزیشن کیمپ میں شامل ہونے اور تحریک عدم اعتماد پر ان کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے—تصویر: پی پی آئی
وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ اتحادیوں نے اپوزیشن کیمپ میں شامل ہونے اور تحریک عدم اعتماد پر ان کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے—تصویر: پی پی آئی

وزیراعظم عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ اتحادی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ایک بار پھر ناراض شراکت داروں کو مطمئن کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کے ایک وفد نے اتحادی جماعت کو منانے کی آخری کوشش کے طور پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے ملاقات کی۔

حکومتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کو بتایا گیا کہ ان کے اتحادیوں نے اپوزیشن کیمپ میں شامل ہونے اور تحریک عدم اعتماد پر ان کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن نے تمام پتے ظاہر کر دیے، جلد بڑا سرپرائز دیں گے، وزیر اعظم

اس پر وزیراعظم نے پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کو اتحادی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقات کے لیے روانہ کیا اور انہیں یقین دلایا کہ ان کے تحفظات دور کیے جائیں گے، انہوں نے امید ظاہر کی کہ اتحادی حکومت میں واپس آئیں گے اور ووٹنگ کے دن قومی اسمبلی میں ان کی حمایت کریں گے۔

رابطہ کرنے پر وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ اگلے 48 گھنٹے ’انتہائی اہم‘ ہیں جب سیاسی ابہام صاف ہو جائے گا، انہوں نے امید ظاہر کی کہ ضرورت کے اس وقت اتحادی وزیراعظم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم خان نے حکمراں جماعت کو ہدایت کی تھی کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ میں ’طاقت کے مظاہرے‘ کے طور پر ’ملک کا سب سے بڑا‘ جلسہ منعقد کرے۔

اس موقع پر وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیر صنعت خسرو بختیار اور وزیر دفاع پرویز خٹک نے وسطی پنجاب، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا سے پارٹی کے پاور شو کے لیے لوگوں کو وفاقی دارالحکومت لانے کے لیے کیے گئے انتظامات کے بارے میں بالترتیب الگ الگ بریفنگ دی۔

مزید پڑھیں: پیسہ چوری کرکے حکومت بچانے سے بہتر ہے حکومت چلی جائے، وزیر اعظم

وزیر اعظم کے حوالے سے کہا گیا کہ ’یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہونا چاہیے۔‘

اس ضمن میں ایک وفاقی جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت ’حقیقی مشکل‘ میں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان کے ناراض اراکین اسمبلی کا پارٹی میں واپس آنا ناممکن ہے۔

بعد ازاں قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر، اسد عمر اور پرویز خٹک پر مشتمل پی ٹی آئی کے وفد نے ایم کیو ایم پی کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی۔

اندرونی ذرائع نے بتایا کہ ایم کیو ایم نے حکمراں جماعت کو کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور کہا کہ ’پارٹی نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ کس طرف کا انتخاب کرنا ہے‘۔

تاہم ذرائع نے کہا کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں بشمول اس کے سربراہ خالد مقبول صدیقی اور وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی سید امین الحق کا مؤقف تھا کہ حکومت نے 3 برسوں میں ان کے مشورے اور مطالبات کو نہیں سنا اور اب ایم کیو ایم کی شکایات دور کرنے کا وقت ختم ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت سے امید تھی کہ ہمارے پاس حکومت میں رہنے کا جواز رہنے دیتی، خالد مقبول

ملاقات میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کی موجودگی کو بہت سے لوگوں نے اس وقت دیکھا جب وہ ایوان کے نگران ہونے کے باوجود حکمران جماعت کی طرف داری کرنے پر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنے۔

اپوزیشن کی جانب سے ایوان کے سربراہ ہونے کے باوجود اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر حکمران جماعت کی طرف داری کرنے پر شدید تنقید کی جارہی تھی ایسے میں ایم کیو ایم کے ساتھ ملاقات میں ان کی موجودگی کو نوٹ کیا گیا۔

مراد راس کی جہانگیر ترین گروپ سے ملاقات

دوسری جانب جہانگیر خان ترین گروپ نے پنجاب کے وزیر اسکول ایجوکیشن مراد راس کے اس دعوے پر حیرت کا اظہار کیا کہ انہوں نے پارٹی کے ناراض اراکین سے ملاقات کی اور انہیں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی برطرفی کا اپنا بنیادی مطالبہ ترک کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔

کمیٹی کے رکن عبدالحئی دستی نے ڈان کو بتایا کہ ’ترین گروپ کی کور کمیٹی کے اراکین لاہور میں نہیں ہیں اور یہ خبریں دیکھ کر ہمارے لیے حیرانی ہوئی کہ مراد راس سے ملاقات ہوئی ہے‘۔

مزید پڑھیں:باقی ساتھیوں سے بھی احمد حسین ڈیہڑ کی طرح کے بیان کی امید ہے، اسد عمر

تاہم انہوں نے کہا کہ کور کمیٹی نے واقعی کچھ روز قبل مراد راس سے ملاقات کی تھی جسے اب اس بارے میں رپورٹ پیش کرنی تھی کہ آیا گروپ کے تحفظات کو دور کیا گیا ہے یا نہیںاور مراد راس کے ساتھ ہماری اگلی ملاقات جمعہ کو طے ہے‘۔

وزیر تعلیم کے ترجمان نے نیوز چینلز سے میڈیا ہاؤسز کو ٹکرز بھیجے تھے، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مراد راس نے ترین گروپ سے ملاقات کی ہے اور انہیں اپنا ’مائنس بزدار‘ کا مطالبہ واپس لینے پر راضی کرنے کی کوشش کی ہے۔

رابطہ کرنے پر جہانگیر ترین گروپ کے ایک رکن نے دعویٰ کیا کہ مراد راس پریشان ہو رہے ہیں اور انہوں نے بیان جاری کیا ہے کیونکہ انہیں گروپ کے تحفظات دور کرنے کے لیے وزیراعلیٰ آفس کی جانب سے سہولت فراہم نہیں کی جا رہی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں