تحریک عدم اعتماد سے پالیسی کی غیر یقینی میں اضافہ ہوگا، موڈیز

01 اپريل 2022
موڈیز نے کہا کہ مالی سال 2022 میں ملک کا خسارہ جی ڈی پی کے 5 سے 6 فیصد تک بڑھ جائے گا—فائل فوٹو:رائٹرز
موڈیز نے کہا کہ مالی سال 2022 میں ملک کا خسارہ جی ڈی پی کے 5 سے 6 فیصد تک بڑھ جائے گا—فائل فوٹو:رائٹرز

موڈیز انویسٹر سروس نے متنبہ کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بڑھتی ہوئی مہنگائی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے دوران پالیسی کی غیر یقینی صورتحال کو بڑھا دے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیویارک کی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی نے پالیسی اور فیصلہ سازی سے منسلک خلا کے باعث صورتحال کو ’کریڈٹ منفی‘ قرار دیا ہے۔

ادارے کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ ہم تحریک عدم اعتماد کو کریڈٹ منفی کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ اس سے پالیسی کے تسلسل کے ساتھ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سمیت بیرونی فنانسنگ حاصل کرنے اور پیداواری نمو کو بڑھانے کے لیے اصلاحات کے نفاذ میں حکومتی صلاحیت پر نمایاں غیر یقینی پیدا ہوتی ہے

ایک بیان میں موڈیز نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب پاکستان عالمی اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے دوچار تھا۔

ایجنسی نے مشاہدہ کیا کہ ’پاکستان کی بیرونی پوزیشن میں مزید بگاڑ، بشمول کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں نمایاں اضافہ اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کٹوتی، حکومت کی بیرونی ادائیگی کی صلاحیت کو خطرے میں ڈالیں گے اور لیکویڈیٹی کے خطرات کو بڑھا دیں گے‘۔

پاکستان کو حالیہ مہینوں میں اشیا کی عالمی قیمتوں میں اضافے اور ملکی طلب میں بحالی کے درمیان اپنے زرمبادلہ کے ذخائر پر خاصے دباؤ کا سامنا ہے۔

روس-یوکرین فوجی تنازع نے اشیا کی عالمی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے جس نے پاکستان کی بیرونی پوزیشن پر دباؤ بڑھا دیا ہے، ملک تیل کا خالص درآمد کنندہ ہے، جس میں پیٹرولیم اور اس سے متعلقہ مصنوعات کل درآمدات کا حصہ تقریباً 20 فیصد ہیں۔

جولائی 2021 اور فروری 2022 کے درمیان پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 12 ارب ڈالر سے زیادہ تھا جو ایک سال پہلے کی اسی مدت میں ایک ارب ڈالر کے سرپلس کے بالکل برعکس ہے۔

موڈیز نے کہا کہ اب ہم توقع کرتے ہیں کہ مالی سال 2022 (جون 2022 کو ختم ہونے والے) میں خسارہ ہماری 4 فیصد کی سابقہ پیش گوئی کے مقابلے میں جی ڈی پی کے 5 سے 6 فیصد تک بڑھ جائے گا۔‘

بیان میں کہا گیا کہ یہ اضافہ پاکستان کے غیر ملکی ذخائر پر زیادہ دباؤ ڈالے گا، جو جولائی 2021 18 ارب 90 کروڑ ڈالر سے کم ہو کر فروری 2022 تک 14 ارب 90 کروڑ ڈالر رہ گئے تھے اور آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق، صرف دو ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔

ریٹنگ ایجنسی نے کہا کہ غیر ملکی زرِ مبادلہ پر پڑتے دباؤ کے باعث بیرونی ذمہ داریوں کی ادائیگیوں کے لیے پاکستان کا آئی ایم ایف سمیت بیرونی قرضے لینا اہم ہوگا۔

تاہم ایجنسی نے نوٹ کیا کہ ’تحریک عدم اعتماد نے اصلاحات، خاص طور پر جن کا مقصد ریونیو کی بنیاد کو وسیع کرنا ہے، کو نافذ کرنے کے لیے حکومت کی صلاحیت پر خاصی غیر یقینی صورتحال پیدا کی ہے ‘

اس کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت سے آئی ایم ایف پروگرام سے کیسے رجوع کرے گا، یہ غیر یقینی ہے اور اس کی شرکت مشکوک ہو سکتی ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی توسیعی فنڈ سہولت کے لیے ساتویں جائزے میں جانا ہے، آئی ایم ایف کی جانب سے 6 ارب ڈالر میں سے اب تک 3 ارب ڈالر مل چکے ہیں اور حکومت کی جانب سے ریلیف اقدامات پر عالمی قرض دہندہ کے تحفظات کے ساتھ بات چیت مارچ کے اوائل سے تعطل کا شکار ہے۔

موڈیز کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے نتیجے کے برعکس حکمراں جماعت کو بیرونی فنانسنگ حاصل کرنے کے لیے ریونیو بڑھانے والی اصلاحات میں تیزی اور ووٹرز کی جانب سے بڑھتی مہنگائی کے باعث پڑنے والے دباؤ میں توازن کرنا مشکل ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں