ریونیو 29 فیصد اضافے سے 44 کھرب روپے تک پہنچ گیا

اپ ڈیٹ 01 اپريل 2022
مجموعی وصولی گزشتہ سال کے 196 ارب روپے کے مقابلے میں 14.8 فیصد بڑھ کر 225 ارب روپے ہو گئی ہے— فائل فوٹو: اے پی پی
مجموعی وصولی گزشتہ سال کے 196 ارب روپے کے مقابلے میں 14.8 فیصد بڑھ کر 225 ارب روپے ہو گئی ہے— فائل فوٹو: اے پی پی

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے مرتب کردہ عارضی اعداد و شمار کے مطابق ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں 43.82 کھرب روپے اکٹھا کیے جو کہ 41.34 کھرب روپے کے ہدف سے 248 ارب روپے زیادہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 21-2020 کی اسی مدت میں 33.94 کھرب کے محصولات کی وصولی کے مقابلے میں مالی سال 22 میں جولائی تا مارچ 29.1 فیصد اضافہ ہوا۔

یہ نمو موجودہ حکومت کو پیٹرولیم کی قیمتوں میں سبسڈی دینے، بجلی کی قیمتوں میں کمی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے اور صنعتوں پر ٹیکس لگانے میں مراعات کی فراہمی میں مدد فراہم کرے گی۔

مزید پڑھیں: اپنے طریقے سے ریونیو بڑھائیں گے، آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق نہیں، وزیر خزانہ

مارچ میں محصولات کی وصولی ہدف سے 29 ارب روپے کی کمی سے 575 ارب روپے رہی جبکہ اس ماہ کے لیے 604 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، تاہم محصولات کی وصولی گزشتہ سال کے 477 ارب روپے سے 20.5 فیصد بڑھ کر 575 ارب روپے ہو گئی۔

مارچ کے مہینے میں محصولات کی وصولی میں کمی آنا شروع ہوگئی، اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ محصولات کی وصولی ناصرف ہدف سے کم ہوئی بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں وصولی میں نسبتاً کم اضافہ ہوا۔

ایف بی آر کے ایک باضابطہ اعلان میں کہا گیا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار تمام پی او ایل مصنوعات پر سیلز ٹیکس کو صفر کر دیا گیا ہے جس کی مارچ 2022 میں ٹیکس باڈی کو 45 ارب کی لاگت آئی، کیڑے مار ادویات، ٹریکٹر، گاڑیاں اور تیل اور گھی 18 ارب روپے ماہانہ آتا ہے۔

اسی طرح دواسازی کی مصنوعات پر زیرو ریٹنگ کی وجہ سے مارچ کے مہینے میں ایف بی آر کو سیلز ٹیکس کی مد میں 10 ارب روپے کا نقصان ہوا، اس طرح مجموعی طور پر ان امدادی اقدامات سے مارچ 2022 کے دوران آمدن پر تقریباً 73 ارب روپے کا اثر پڑا ہے۔

مزید براں سیاسی غیر یقینی صورتحال اور درآمدی دباؤ نے بھی مارچ کے دوران محصولات کی وصولی پر منفی اثر ڈالا۔

یہ بھی پڑھیں: رواں مالی سال: 7 ماہ میں ریونیو کلیکشن ہدف سے تجاوز کرکے 25 کھرب 70 ارب روپے رہی

حکومت پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ ایف بی آر کا نیا ریونیو ہدف 61 کھرب روپے ہوگا، بجٹ کے خسارے کو ایک مقام پر رکھنے کی درخواست پر اس ہدف میں اوپر کی طرف نظر ثانی کی گئی، حکومت نے رواں سال کا بجٹ تیار کرتے ہوئے آئی ایم ایف کو مالی سال 22 میں 58.29 کھرب روپے بڑھانے کی یقین دہانی کرائی تھی جہاں اس سے قبل مالی سال 21 میں 47.21 کھرب روپے جمع کیے گئے تھے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ ساتھ 343 ارب روپے کا استثنیٰ واپس لینے اور گاڑیوں، موبائل فونز اور تفریح ​​پر ٹیکس کی شرحوں میں اضافے جیسے کئی دیگر اقدامات موجودہ تخمینوں میں آمدنی میں اضافہ کریں گے۔

ریفنڈز اور ریبیٹس کی ادائیگیوں سمیت مجموعی وصولی جو کہ جولائی تا مارچ مالی سال 21 کے دوران 35.77 کھرب روپے سے بڑھ کر مالی سال 22 کے 9ماہ میں 46.11 کھرب ہو گئی ہے۔

جولائی تا مارچ مالی سال 22 کے دوران ادا کیے گئے ریفنڈز کی رقم 229 ارب روپے تھی جو گزشتہ سال ادا کیے گئے 183 ارب روپے کے مقابلے میں 25 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتی ہے، اسی طرح مارچ کے دوران تقسیم کیے گئے ریفنڈز کی رقم 31.9 ارب روپے تھی جو کہ 2021 کے اسی مہینے کے مقابلے میں 21.3 فیصد زیادہ ہے جب ریفنڈز 26.3 ارب روپے تھے، یہ اقدام صنعت میں لیکویڈیٹی کی کمی کو روکنے کے لیے ریفنڈز کو تیز کرنے کے ایف بی آر کے عزم کا عکاس ہے۔

بڑھتے ہوئے درآمدی بل کے ساتھ قانونی ذرائع پر اسمگلنگ کا شکار اشیا کی درآمدات میں اضافے کے ساتھ مالی سال 22 کے 9 ماہ کے دوران مجموعی کسٹمز کی وصولی 728 ارب روپے رہی جو کہ گزشتہ سال 547 ارب تھی، جو کہ 33 فیصد کی بھاری نمو کی نشاندہی کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر نے ٹیکس وصولی کے ہدف سے 30 ارب زیادہ حاصل کرلیے

مالی سال 22 کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران مجموعی انکم ٹیکس کی وصولی 15.8 کھرب روپے رہی جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں 12.6 کھرب جمع کی گئی تھی جو 25.4 فیصد کی نمو کو ظاہر کرتی ہے۔

دریں اثنا مجموعی سیلز ٹیکس کی وصولی گزشتہ سال کی اسی مدت میں 15.7 کھرب روپے کے مقابلے میں بڑھ کر 20.5 کھرب روپے تک پہنچ گئی ہے جو 30.5 فیصد کی نمو کو ظاہر کرتی ہے۔

یہ نمو ایندھن کی قیمتوں میں اب تک کے سب سے زیادہ اضافے، درآمدات میں اضافے اور زیر جائزہ مدت کے دوران معاشی سرگرمیوں کے احیا کے نتیجے میں ہوئی۔

فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مجموعی وصولی گزشتہ سال کے 196 ارب روپے کے مقابلے میں 14.8 فیصد بڑھ کر 225 ارب روپے ہو گئی ہے۔

ایف بی آر کے بیان کے مطابق حکومت کی جانب سے عام آدمی کو مختلف ضروری اشیا پر ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر ریلیف دینے کے باوجود محصولات کی وصولی میں بے مثال اور مسلسل ترقی کی رفتار حاصل کی گئی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

ندیم احمد Apr 01, 2022 02:10pm
حکومت ایسی پالیسیاں بنا رہی ہے جس سے اشیاء کی لاگت میں اضافہ ہو تا کہ زیادہ سے زیادہ سیلز ٹیکس وصول کیا جائے، اس کے علاوہ 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت میں آ نے کے بعد اشیاء کی ایک طویل فہرست ہے جن پر 17% سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی نافذ کی گئی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے سے بھی ٹیکس اُسی تناسب سے بڑھ جاتا ہے۔ یہ ہی وہ مہنگائی ہے جو عوام برداشت کر رہی ہے۔