وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو آئین و قانون کے منافی قرار دے کر مسترد کردیا گیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس آج صبح ساڑھے 11 بجے طلب کیا گیا تھا جو کچھ تاخیر کے ساتھ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سربراہی میں تقریباً 12 بج کر 5 منٹ پر شروع ہوا۔

اجلاس کے آغاز میں وزیر قانون فواد چوہدری نے قرار داد کو غیر ملک کی جانب سے پاکستان میں حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا۔

فواد چوہدری نے قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ تحریک عدم اعتماد آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت پیش کی جاتی ہے لیکن آئین کا ایک اور آرٹیکل 5 ایک ہے جس کے مطابق ملک سے وفاداری ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔


آرٹیکل 5 کیا ہے؟

i) مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔

ii) دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو واجب التعمیل ذمہ داری ہے۔


فواد چوہدری نے کہا کہ 7 مارچ کو ہمارے ایک سفیر کو ایک سرکاری اجلاس میں طلب کیا جاتا ہے اور وہ اجلاس میں شریک ہوتے ہیں، اس ملاقات میں دوسرے ملک کے سفیر بھی ہوتے ہیں، اجلاس میں ہمارے سفیر کو یہ بتایا جاتا ہےکہ تحریک عدم پیش کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 8 مارچ کو عدم اعتماد پیش کی گئی تھی، ہمارے سفیر کو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان سے اس ملک کے تعلقات کا دار و مدار اس تحریک کی کامیابی پر منحصر ہے اگر اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو آپ کو معاف کردیا جائے گا اور ناکام ہوتی ہے تو آپ کا اگلا راستہ خطرناک ہوگا۔

اسپیکر کی رولنگ

فواد چوہدری کے اعتراض کے فوری بعد ہی ڈپٹی اسپیکر نے اراکین قومی اسمبلی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کے خلاف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد 8 مارچ 2022 کو پیش کی تھی، عدم اعتماد کی تحریک کا آئین، قانون اور رولز کے مطابق ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی غیر ملکی طاقت کو یہ حق نہیں کہ وہ سازش کے تحت پاکستان کی منتخب حکومت کو گرائے، وزیر قانون نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ درست ہیں لہٰذا میں رولنگ دیتا ہوں کہ عدم اعتماد کی قرارداد آئین، قومی خود مختاری اور آزادی کے منافی ہے اور رولز اور ضابطے کے خلاف میں یہ قرارداد مسترد کرنے کی رولنگ دیتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل 54 کی شق 3 کے تحت تفویض کردہ اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے جمعہ 25 مارچ 2022 کو طلب کردہ اجلاس کو برخاست کرتا ہوں۔

ساتھ ہی انہوں نے ایوان زیریں کے اجلاس کو غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

اجلاس میں شرکت کے لیے اراکین اسمبلی کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے— تصویر: رائٹرز
اجلاس میں شرکت کے لیے اراکین اسمبلی کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے— تصویر: رائٹرز

قبل ازیں مریم اورنگزیب نے ایک ٹوئٹ میں ان 174 اراکین اسمبلی کے اعداد و شمار پیش کیے تھے جو تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کی حمایت کررہے ہیں۔

علاوہ ازیں اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی کی کارروائی پر غصے کا اظہار کیا اور ایوان میں اپنے طور پر اجلاس جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایاز صادق اسپیکر کی سیٹ پر براجمان ہوئے۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی میں اپنا اجلاس منعقد کیا جہاں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں 195 اراکین موجود تھے۔

اپوزیشن کا وزیراعظم پر عدم اعتماد

اپوزیشن نے گزشتہ ماہ 8 مارچ کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی اور ساتھ ہی اسمبلی کے اجلاس کی ریکوزیشن بھی دے دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش

آئین کے تحت اسپیکر اسمبلی اجلاس کی ریکوزیشن جمع کرانے کے 14 روز کے اندر اجلاس بلانے کا پابند ہے اور تحریک عدم اعتماد پارلیمان میں پیش کیے جانے کے بعد کم از کم 3 بعد اور 7 روز سے پہلے اس پر ووٹنگ ہونی ہوتی ہے چناچہ 22 مارچ تک اجلاس طلب کیا جانا تھا۔

اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد داخل کی، فوٹو: ڈان نیوز
اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد داخل کی، فوٹو: ڈان نیوز

تاہم اس دوران اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کونسل کے 48 ویں اجلاس کے انعقاد کے باعث ایوانِ زیریں کے ہال میں تزیئن و آرائش کا کام جاری تھا۔

چنانچہ اسپیکر نے 21 مارچ کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے 25 مارچ کو اجلاس طلب کیا جسے وفات پاجانے والے رکن قومی اسمبلی خیال زمان اور دیگر کے لیے فاتحہ خوانی کے فوری بعد ملتوی کردیا گیا تھا۔

جس کے بعد 28 مارچ کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے 161 اراکین کی حمایت سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔

منحرف اراکین اور سندھ ہاؤس

قبل ازیں تحریک پیش کیے جانے سے قبل ہی حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ اراکین کے اپوزیشن کیمپ میں جانے کا بھی معاملہ بھی سامنے آیا اور محرف اراکین سندھ ہاؤس میں پائے گئے تھے جن کی تعداد سے متعلق مختلف دعوے سامنے آئے۔

پی ٹی آئی کے اراکین نے یہ خبر سننے کے بعد سندھ ہاؤس اسلام آباد پر دھاوا بول دیا تھا اور مرکزی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے تھے۔

تحریک انصاف کے کارکنان سندھ ہاؤس کا مرکزی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے تھے، فوٹو: ڈان نیوز
تحریک انصاف کے کارکنان سندھ ہاؤس کا مرکزی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے تھے، فوٹو: ڈان نیوز

منحرف اراکین کے سامنے آنے کے بعد سے صورتحال ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی اور حکومتی کیمپ میں ہلچل مچ گئی، انحراف کرنے والے اراکین کو اپوزیشن کے حق میں ووٹ دینے سخت انتباہات بھی کیے گئے اور باضابطہ طور پر اظہارِ وجوہ کے نوٹس بھی جاری کیے گئے۔

مزید پڑھیں: تحریک عدم اعتماد سے پی ٹی آئی پر عوام کا اعتماد بڑھا، وزیراعظم

تاہم حکومت کی ڈھارس اس وقت بندھی جب اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی جانب سے تحریک عدم اعتماد میں حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا گیا جس کے بدلے میں چوہدری پرویز الٰہی کو عثمان بزدار کی جگہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کا وعدہ اور انہیں ناراض اراکین کی حمایت کا ٹاسک دیا گیا کیا گیا۔

اس پیش رفت کے سامنے آنے کے بعد 28 مارچ کو پنجاب میں اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تاہم وزیراعلیٰ نے اسی روز اپنا استعفیٰ وزیراعظم عمران خان کو پیش کردیا جسے 5 روز بعد گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے منظور کرلیا۔

اتحادیوں کی راہیں جدا

منحرف اراکین کے سامنے آنے پر پارٹی پالیسی سے انحراف کی صورت میں تاحیات نااہلی کی کوشش کر کے دباؤ ڈالا گیا اور اس مقصد کے لیے آئین کی دفعہ 63 اے کے تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا گیا۔

تاہم دوسرا بڑا جھٹکا حکومت کو اس وقت لگا جب اپوزیشن اتحاد مرکز اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اس کے 5 میں سے 4 اراکین اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد پر وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا وعدہ کیا۔

ایم کیو ایم نے ایک معاہدہ کر کے تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں اپوزیشن کا کیمپ جوائن کیا—تصویر: اے پی
ایم کیو ایم نے ایک معاہدہ کر کے تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں اپوزیشن کا کیمپ جوائن کیا—تصویر: اے پی

اس کے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے اپنی ایک اور اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کو منانے کی کوششوں میں شدت آگئی اور حکمراں جماعت کے وفود نے اتحادیوں سے کئی ملاقات کی۔

تاہم یہاں بھی حکومت کی کوششیں رائیگاں گئیں اور ایم کیو ایم پاکستان نے بھی اپوزیشن کیمپ میں شمولیت اختیار کرلی جس کے بعد پی ٹی آئی واضح طور پر ایوان میں اکثریت سے اقلیت میں بدل گئی۔

وزیر اعظم کا 'سرپرائز'

تاہم 27 مارچ کو وزیراعظم کے ایک اقدام نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے کو یکسر مختلف رنگ اس وقت دیا جب 'امر بالمعروف' کے عنوان سے منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ان کی حکومت کو گرانے کی تحریری طور پر دی گئی دھمکی ہے۔

خط سامنے آنے کے بعد مختلف قیاس آرائیاں پائی جارہی تھی چنانچہ حکومت نے اس مراسلے کو چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔

تاہم اگلے ہی روز اپنے فیصلے میں تبدیلی کرتے ہوئے مبینہ دھمکی آمیز خط پر کابینہ اراکین کے علاوہ میڈیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بھی بریفنگ دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:تحریک عدم اعتماد اور لوٹ سیل میلہ

دریں اثنا علیحدہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ خط اصل میں سفارتی کیبل تھا جو امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجی تھی۔

ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ ملاقات میں امریکا کی جانب سے استعمال کی گئی زبان غیر معمولی طور پر سخت تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک عمران خان دھمکی آمیز مراسلے کے ساتھ منظر عام پر نہیں آئے اس وقت تک امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں ٹوٹ پھوٹ یا نئی کشیدگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔

مذکورہ صورتحال پر وزیراعظم کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اہم وفاقی وزرا، مشیر قومی سلامتی، مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی۔

اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ مشیر قومی سلامتی نے کمیٹی کو ایک غیر ملک میں پاکستان کے سفیر کے ساتھ غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار کے باضابطہ رابطے اور کمیونیکیشن کے بارے میں بریفنگ دی، غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار کے رابطے اور کمیونیکیشن سے متعلق وزارت خارجہ کے سفیر نے باضابطہ طور پر آگاہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: دھمکی آمیز خط: سفارتی ذریعے سے مراسلہ دے دیا گیا، دفتر خارجہ

اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلہ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غیر ملکی عہدیدار کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان کو غیر سفارتی قرار دیا تھا۔

جاری بیان کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے بریفنگ پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ یہ خط مذکورہ ملک کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے جو ناقابل قبول ہے۔

بعدازاں دفتر خارجہ نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہوئے فیصلے کے مطابق سفارتی ذریعے سے باضابطہ مراسلہ دے دیا اور اس حوالے سے جاری بیان میں بھی کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا۔

البتہ قوم سے خطاب کے دوران بظاہر زبان پھسلنے کی صورت میں وزیر اعظم نے امریکا کا نام مبینہ طور پر اس مراسلے کے پسِ پردہ ملک کے طور پر لیا، لیکن پھر کہا کہ یہ کوئی اور ملک ہے امریکا نہیں۔

جس پر امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے اقدام میں امریکا کے ملوث ہونے کے دعوے محض الزامات ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں