قومی اسمبلی کا اجلاس: تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ پرامن انداز میں ہوگی، اٹارنی جنرل

01 اپريل 2022
خالد جاوید خان نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے انعقاد کے طریقہ کار پر سختی سے عمل کیا جائے گا—فائل فوٹو: اے پی پی
خالد جاوید خان نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے انعقاد کے طریقہ کار پر سختی سے عمل کیا جائے گا—فائل فوٹو: اے پی پی

اٹارنی جنرل پاکستان (اے جی پی) خالد جاوید خان نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں 3 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ بغیر کسی رکاوٹ کے قانونی تقاضوں کے مطابق پرامن طریقے سے ہو گی۔

وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے فوری بعد ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے انعقاد کے طریقہ کار پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خالد جاوید خان کی جانب سے یہ یقین دہانی حکمراں جماعت کے کچھ رہنماؤں کے بیانات کے بعد سامنے آئی ہے کہ اتوار کو اراکین اسمبلی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے وقت پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ایک لاکھ افراد موجود ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت کا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ میں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کی درخواست پر سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو پہلے ہی یقین دہانی کرائی ہے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے طریقہ کار پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا۔

21 مارچ کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل پاکستان نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا تھا کہ کسی بھی رکن اسمبلی کو ووٹنگ کے دن قومی اسمبلی میں داخل ہونے سے کسی بھی طرح سے روکا نہیں جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت کی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے 19 مارچ کو سندھ ہاؤس کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ کی ناراضگی سے آگاہ کیا جس پر وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ ہجوم کی حکمرانی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:الیکشن کمیشن آئینی طور پر سپریم کورٹ کی رائے پر عمل کا پابند ہے، اٹارنی جنرل

تاہم، سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے تھے کہ یقین دہانی سیشن کے صرف پہلے دن کے لیے نہیں بلکہ سیشن کے ہر دن کے لیے ہونی چاہیے۔

سیاسی تناؤ اس ماہ کے شروع میں اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب حکمراں پی ٹی آئی اور ایک کثیر الجماعتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) دونوں نے ڈی چوک پر عوامی جلسوں کا اعلان کیا تھا، تاہم، مقامی حکام کی جانب سے علاقے میں حساس ریاستی تنصیبات کی حفاظت کے بارے میں خدشات کے اظہار کے بعد دونوں فریقوں نے مقامات کو دوسری جگہوں پر منتقل کر دیا تھا۔

بعد ازاں وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ بروز اتوار کو ایک عوامی ریلی کے دوران ایک 'دھمکی آمیز خط' شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ان کی حکومت کو اوپر لانے کے لیے 'غیر ملکی سازش' کا ثبوت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:امید ہے وزیر اعظم کوئی بھی خفیہ معلومات افشا نہیں کریں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ

جب اٹارنی جنرل پاکستان سے پوچھا گیا کہ کیا وزیراعظم سے ملاقات کے دوران یہ 'خط' بھی زیر بحث آیا، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات موجودہ معاملات سے متعلق قانونی نقطہ نظر پر تبادلہ خیال کے لیے تھی اور اس خط کا ان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

خط کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر

دوسری جانب شہری سید طارق بدر نے سپریم کورٹ میں درخواست کی ہے، جس میں سپریم کورٹ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کو 'خط' سپریم کورٹ میں پیش کرنے کی ہدایت کرے۔

درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ جی ایم چوہدری کے توسط سے دائر درخواست میں پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججوں کے جوڈیشل انکوائری کمیشن کی تشکیل اور ضروری قانونی کارروائی کی ذمہ داری طے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کےخلاف ’دھمکی آمیز خط‘ کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا

خط میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ اگر خط میں ایسا مبینہ مواد شامل ہے جو آئین اور قانون کے خلاف ہے، جس سے ریاست کی سلامتی، سالمیت اور یکجہتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، تو عدالت عظمیٰ کی جانب سے جواب دہندگان کو قانونی اور آئینی ذمہ داریوں کے مطابق عمل کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں۔

درخواست میں یہ بھی مؤقف اپنایا گیا ہے کہ مبینہ خط کے درست ثابت ہونے کی صورت میں وفاقی حکومت ملک کے مفاد اور سالمیت میں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 212 کے تحت پارٹیوں کو تحلیل کرنے کے لیے مجرم سیاسی جماعتوں کے خلاف ریفرنس دائر کرے گی۔

دائر کردہ درخواست کے جواب دہندگان میں وزیر اعظم آفس، قومی سلامتی کونسل کے چیئرمین، قومی اسمبلی کے اسپیکر، الیکشن کمیشن آف پاکستان، خارجہ ، داخلہ، دفاع، اور قانون و انصاف کی وزارتوں کے ذریعے وفاق پاکستان شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں