گاڑیوں کی قیمتیں حکومت ریگولیٹ نہیں کرتی، وزارت صنعت و پیداوار

اپ ڈیٹ 04 اپريل 2022
او ای ایمز کو  بین الاقوامی مارکیٹ میں تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول سے نمٹنے کے لیے قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا—فائل فوٹو: اے ایف پی
او ای ایمز کو بین الاقوامی مارکیٹ میں تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول سے نمٹنے کے لیے قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا—فائل فوٹو: اے ایف پی

سابق وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار نے کہا ہے کہ گاڑیوں کی قیمتیں فری مارکیٹ میکانزم کے تحت چلتی ہیں اور حکومت کی جانب سے ریگولیٹ نہیں کی جاتیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ بات قومی اسمبلی میں رکن قومی اسمبلی (ایم این اے) سعد وسیم کے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئی کہی۔

سعد وسیم نے سوال کیا تھا کہ کیا حکومت نے محسوس کیا ہے کہ چینی سمیت متعدد کار ساز کمپنیوں نے اپنے پہلے سے بک شدہ یونٹس کی قیمتوں میں ہزاروں روپے کا اضافہ کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں سے قیمتوں میں اضافے پر وضاحت طلب کرلی

جس پر ایک تحریری جواب میں خسرو بختیار نے بتایا کہ متعدد عوامل جیسے روپے اور ڈالر کی برابری کی وجہ کاروں کی قیمتوں میں اضافے کو متاثر کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ گاڑیوں میں بہتری اور اضافی خصوصیات کے علاوہ وینڈنگ انڈسٹری کے خام مال جیسے اسٹیل، پلاسٹک اور ربڑ کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ نیز شپنگ کے اخراجات بھی یونٹس کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فی الحال گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ بنیادی طور پر روپے اور ڈالر کی برابری، بین الاقوامی مارکیٹ میں ان پٹ میٹریل کی قیمتوں اور شپنگ کے اخراجات میں اضافے کی وجہ سے ہے جو کہ حکومت اور اصل سازوسامان بنانے والوں(او ای ایمز) کے کنٹرول سے باہر ہے۔

وزارت کے مطابق (او ای ایمز) کو بین الاقوامی مارکیٹ میں تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول سے نمٹنے کے لیے قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا۔

مزید پڑھیں:ٹویوٹا گاڑیوں کی قیمت میں ساڑھے 12 لاکھ روپے تک کا اضافہ

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ دوسرا اضافہ حکومت کی جانب سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) اور سیلز ٹیکس کی بحالی کے بعد کیا گیا۔

اسپیئر پارٹس کی فیصد کے بارے میں ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پرانے او ای ایمز کی لوکلائزیشن کی سطح اوسطاً 53.4 فیصد تھی اور مختلف مینوفیکچررز کی لوکلائزیشن کی سطح مختلف ہے۔

گاڑیوں کی اسمبلی کے لیے استعمال ہونے والے زیادہ تر آٹو پارٹس خاص طور پر شیٹ میٹل کے پرزے، پلاسٹک، ربڑ اور شیشے کے پرزے مکمل طور پر مقامی تھے سوائے ہائی ٹیک پارٹس جیسے انجن اور ٹرانسمیشن پارٹس جو درآمد کیے جا رہے تھے۔

جیسا کہ سوزوکی اپنی سوئفٹ، ویگن آر اور کلٹس کے 60 فیصد سے زیادہ پرزے تیار کر رہا تھا جبکہ ٹویوٹا اپنی یارِس اور کرولا کی مختلف اقسام کے 60 فیصد سے زیادہ پرزے تیار کر رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پاک سوزوکی کے مختلف گاڑیوں کے ماڈلز کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ

اسی طرح ہونڈا اپنی سوک کی مختلف قسموں کے لیے 58 فیصد اور سٹی کے مختلف حصوں کے لیے 68 فیصد پارٹس تیار کر رہی ہے، تاہم کیا اسپورٹیج کے صرف 11 فیصد حصے مقامی تھے اور کیا پیکانٹو کے 15 فیصد حصے مقامی طور پر تیار کیے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں