ماہر علی
ماہر علی

بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیرونی قرضے، خوراک اور ایندھن کی قلت اور سڑکوں پر ہوتے مظاہرے، اس ملک کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن ایک ایسی ہی بحرانی صورتحال کا سامنا اس وقت سری لنکا کو بھی درپیش ہے۔

سری لنکا کو 1948ء میں اپنی آزادی کے بعد سے اب تک کے سب سے زیادہ سخت معاشی چیلنج کا سامنا ہے اور اس کا شبہ کئی دنوں سے ظاہر کیا جارہا تھا۔ ملک میں جاری مظاہروں کے نتیجے میں اتوار کے روز پوری کابینہ مستعفی ہوگئی اور صرف صدر گوٹابایا راجاپاکسے اور وزیرِاعظم مہندا راجاپاکسے اپنے عہدوں پر موجود ہیں۔

سیاسی خاندانی کمپنیاں جنوبی ایشیا میں نئی نہیں ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ رجحان بہت پرانا ہے جہاں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی عملداری کا براہِ راست تعلق بھٹو-زرداری خاندان اور شریف خاندان سے ہے۔ یہاں تک کہ بھارت میں ماضی میں بڑی قوت رہنے والی کانگریس پارٹی جو اب اپنی انتخابی قوت کھو چکی ہے وہ بھی خود کو نہرو-گاندھی تعلق سے علیحدہ نہیں کرسکی۔

مزید پڑھیے: سری لنکا کے ہسپتالوں میں جان بچانے والی ادویات کی شدید قلت

سری لنکا میں یہی رجحان کبھی بندرانائیکے خاندان کے حوالے سے دیکھا جاسکتا تھا جو سری لنکا فریڈم پارٹی میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ تاہم اس صدی کے آغاز میں ان کی جگہ راجاپاکسے خاندان نے لے لی۔

مہندا راجاپاکسے کا دورِ صدارت 2005ء میں شروع ہوا اور 10 سال تک چلا۔ اس دوران علیحدگی پسند ایل ٹی ٹی ای کے خلاف جنگ بھی اپنے خونی انجام کو پہنچی لیکن حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رہیں جن کا عمومی نشانہ تامل اور ان کے حامیوں کو بنایا جاتا تھا۔

اس وقت کے وزیر دفاع آج کے صدر یعنی گوٹابایا راجاپاکسے تھے۔ ان کے تیسرے بھائی باسل اس دوران وزیر برائے معاشی ترقی رہے اور 2019ء میں جب ان کا خاندان اقتدار میں واپس آیا تو انہیں وزیرِ خزانہ بنادیا گیا۔

اقتدار اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے باوجود بظاہر داعش سے منسلک اسلامی شدت پسندوں کی جانب سے ایسٹر کے موقع پر کیے گئے بم دھماکے نے اقتدار میں ان کی واپسی کو یقینی بنایا۔ اس حملے کے نتیجے میں قومی سلامتی ایک اہم انتخابی معاملہ بن گیا تھا۔

اس حادثے کے بعد سے سری لنکا میں مسلم اقلیت پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم معمول بن گئے۔ ستم طریفی دیکھیے کہ سنہالا بدھ مت کی اکثریت جو مسلمانوں کی موجودگی کے خلاف ہیں وہ اکثر عیسائیوں کے بھی اتنے ہی خلاف ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیے: سری لنکا میں بحران ابتر، کابینہ کے 26 وزرا نے استعفیٰ دے دیا

موجودہ بحران میں شاید قومیت اور مذہب کا اتنا عمل دخل نہ ہو لیکن اس تناؤ کو موجودہ صورتحال کے پس منظر کے طور پر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ 3 سال قبل ہونے والے اس بم دھماکے نے سری لنکا کی ایک سیاحتی مقام کی حیثیت کو نقصان پہنچایا تھا۔ یہ شعبہ سری لنکا میں زرِ مبادلہ کا ایک اہم ذریعہ ہے لیکن سیاحت کے شعبے کو زیادہ بڑا دھچکہ کورونا وائرس کی وجہ سے لگا۔

راجاپاکسے خاندان جس بحران سے نمٹنے کی کوشش کررہا ہے اس کی وجہ کچھ قابلِ گریز معاشی بدانتظامی کی مثالیں بھی ہیں۔ ان میں غیر ضروری ٹیکس چُھوٹ اور گزشتہ سال کھاد پر لگائی جانے والی پابندی تھی جس نے زرعی شعبے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس کے علاوہ ملک کا بڑھتا ہوا بیرونی قرضہ بھی ادا نہیں ہورہا تھا کیونکہ زرِ مبادلہ کے ذخائر بہت کم تھے۔

بنیادی ضروریات تک آسان رسائی کئی مہینوں سے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ خاطر خواہ ریلیف دینے میں حکومت کی ناکامی کی وجہ سے مظاہرے شروع ہوئے جو پُرتشدد ہوگئے۔

کچھ ایسے گھرانوں کے بارے میں بھی خبریں آئیں جو ماضی کی نسبت 10 گنا کم چیزیں خرید سکتے ہیں اور اسی سے گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ بچوں کا دودھ اور خشک دودھ کمیاب ہوچکا ہے۔ دودھ والی چائے اب ایک روزمرہ کی خوراک کی جگہ نسبتاً تعیش بن چکی ہے۔ روزانہ 13 گھنٹے ہونے والی بجلی کی بندش کے دورانیے میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ پیٹرول پمپس پر بھی طویل قطاریں لگی ہوتی ہیں، اور پیٹرول کی قلت کے سبب ممکنہ تصادم کے پیش نظر پیٹرول پمپس پر فوج تعینات کردی گئی ہے۔

مزید پڑھیے: سری لنکا میں احتجاج کے بعد سوشل میڈیا کی بندش

سری لنکا کی بھارت اور بنگلہ دیش سے منسلک محدود معاشی لائف لائنز بھی بہت زیادہ سہارا نہیں دے سکیں۔ ظاہری طور پر ایران چائے کے بدلے تیل دینے پر راضی ہے لیکن وہ ایک حد سے آگے نہیں جائے گا۔ پاکستان کی طرح سری لنکا بھی سپلائی چین اور فوڈ سیکیورٹی مسائل کا مظہر ہے جو کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہوئے اور یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں مزید سنگین ہوگئے۔

سری لنکا کے قرضوں کو چین کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے الگ نہیں کرسکتے لیکن اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے۔ لیکن اگر آئی ایم ایف ہینڈ آؤٹ کام کرگیا تو اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ عالمی نیو لبرل ازم کئی حوالوں سے ممالک کی خود انحصاری کو ختم کردیتی ہے اور اس کا اثر سری لنکا پر بھی ہوا ہے۔ پھر آمرانہ طرزِ حکومت اور کرپشن نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔

اس وقت ہم مستقبل کے حوالے سے کوئی پیشگوئی تو نہیں کرسکتے لیکن امید ضرور کرسکتے ہیں کہ یہ احساس ضرور ہوجائے گا اس صورتحال کا جو بھی حل نکلے اس میں راجاپاکسے شامل نہیں ہوسکتے۔

بہرحال اس سبق کو سری لنکا کے علاوہ بھی دیگر ممالک میں نظر آنا چاہیے۔ شیکسپیئر کے کردار میں بینقو نے میک بیتھ کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’عجیب بات یہ ہے کہ اکثر اوقات ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے تاریکی ہمیں سچائی سے تو آگاہ کرتی ہے لیکن درحقیقت اس کے اثرات ہمارے لیے نقصاندہ ہوتے ہیں’۔ لیکن عالمی طاقتوں اور مفاد پرست سیاستدانوں کے سامنے ہماری صورتحال مزید خراب رہے۔


یہ مضمون 06 اپریل 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں