شہباز گل، شہزاد اکبر کا نام فوری طور پر ’اسٹاپ لسٹ‘ سے نکالنے کا حکم

اپ ڈیٹ 13 اپريل 2022
عدالت نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ کسی کو ہراساں نہ کیا جائے — فائل فوٹو: پی آئی ڈی/اے پی پی
عدالت نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ کسی کو ہراساں نہ کیا جائے — فائل فوٹو: پی آئی ڈی/اے پی پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر اور سابق معاون خصوصی شہباز گل کے نام فوری طور پر اسٹاپ لسٹ سے نکالنے کی ہدایت کردی۔

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شہباز گل اور شہزاد اکبر کے نام اسٹاپ لسٹ سے نکلوانے کی درخواستوں پر سماعت کی۔

دورانِ سماعت وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام نے بتایا کہ ملک میں جو حالات سامنے آئے اس دوران نام اسٹاپ لسٹ میں ڈالے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: شہباز گِل، شہزاد اکبر کا نام اسٹاپ لسٹ میں ڈالنے کا حکم معطل

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے دریافت کہ ملک میں کیا ہوگیا تھا؟ کیا مارشل لا لگ گیا تھا؟

حکام نے بتایا کہ ہمیں ایف آئی اے اسلام آباد زون سے نام اسٹاپ لسٹ میں ڈالنے کی شکایت ملی، مذکورہ درخواست 8 اپریل کو موصول ہوئی تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا مطلب پچھلی حکومت خود یہ کیس ان پر بنا کر گئی ہے، سنجیدہ بات کریں۔

ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل اور شہزاد اکبر کا نام آمدن سے زائد اثاثوں کی وجہ سے لسٹ میں ڈالا گیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے حکام کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اپنے آپ کو شرمندہ نہ کریں، یہ جان لیں کہ یہ آئینی عدالت آپ کو یہ سب نہیں کرنے دے گی۔

مزید پڑھیں: شہزاد اکبر کو عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟ وجہ سامنے آگئی

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دے گی، یہ حکومت ظاہر کرے کہ انتقامی کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔

درخواست گزاروں کے وکلا نے بتایا کہ عدالت کے حکم پر عملدرآمد نہیں ہوا اور ابھی تک نام لسٹ میں شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسٹاپ لسٹ میں نام ڈالنے کے لیے کون سا قانون موجود ہے؟

شہزاد اکبر نے کہا کہ ان سے پوچھیں کیا سول سرونٹس کے خلاف بھی انکوائری شروع کی گئی ہے جن کے نام اسٹاپ لسٹ میں ہیں؟

جس پر ایف آئی حکام نے بتایا کہ دو انکوائریز رجسٹرڈ کی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: زلفی کا نام ای سی ایل سے نکالنے میں بہت پُھرتی دکھائی گئی،اسلام آباد ہائیکورٹ

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے، ایف آئی اے اس عدالت میں باقاعدگی سے آتی رہی ہے، اب کوئی نئی ایف آئی اے آ گئی ہے؟

ایف آئی حکام نے نام نہ نکالے جانے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا حکم تاخیر سے ملا، افسران تراویح پڑھنے چلے گئے تھے، ساتھ ہی یقین دہانی کرائی کہ اب عدالت کے حکم پر عمل ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے کب سے اتنا خودمختار ہو گیا کہ حکومت وقت کے لوگوں کے خلاف کیسز بنائے، ایف آئی اے نے جو کچھ کیا یہ عدالت گزشتہ دو سال سے دیکھ رہی ہے، یقینی بنائیں کہ شہزاد اکبر اور شہباز گل کا نام لسٹ سے نکالا جائے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ بات افسوس ناک بات ہے کہ ہر حکومت ایف آئی اے کو اسی طرح استعمال کرتی ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ ایف آئی اے سے پوچھ لیں ہم خود ہی اڈیالہ جیل چلے جاتے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے شہزاد اکبر سے استفسار کیا کہ کیا آپ جیل جانا چاہتے ہیں؟

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کا نام اسٹاپ لسٹ سے فوری نکالنے کا حکم دیتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ کسی کو ہراساں نہ کیا جائے۔

ساتھ ہی عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے اور سیکریٹری داخلہ سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 18 اپریل تک ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں