2018 میں پی ٹی آئی حکومت کے پاس کوئی معاشی منصوبہ نہیں تھا، شوکت ترین

اپ ڈیٹ 14 اپريل 2022
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی ایک اور ناکامی سرکاری اداروں کو ٹھیک کرنے میں ناکامی تھی— فوٹو: اسکرین شاٹ
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی ایک اور ناکامی سرکاری اداروں کو ٹھیک کرنے میں ناکامی تھی— فوٹو: اسکرین شاٹ

سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ 2018 میں جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اقتدار میں آئی تو اس کے پاس کوئی معاشی منصوبہ نہیں تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر خزانہ نے گورنر ہاؤس سندھ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ معاشی منصوبہ بندی میں وقت لگتا ہے اور اس کی وجہ سے تعطل پیدا ہوا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم نے معاشی مشکلات پر قابو پانے کیلئے مشاورتی کونسل تشکیل دے دی

شوکت ترین نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی ایک اور ناکامی سرکاری اداروں کو ٹھیک کرنے میں ناکامی تھی، یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں پی ٹی آئی حکومت نے ’کچھ نہیں‘ حاصل کیا۔

انہوں نے ’تجارتی منازل‘ کی تیاری میں ناکامی کا الزام بھی قبول کیا جسے حکومت اشیا کی عالمی قیمتوں میں اضافے سے بچانے کے لیے استعمال کر سکتی تھی۔

سابق وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس کا زیادہ تر حصہ ان نکات کی تردید پر مشتمل تھا جو ایک روز قبل پریس کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما مفتاح اسمٰعیل نے اٹھائے تھے۔

جہاں تک مفتاح اسمٰعیل کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 22-2021 میں 20 ارب ڈالر کو چھو سکتا ہے تو شوکت ترین نے کہا کہ سالانہ فرق کو 15 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کے چار فیصد سے کم رہنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی حکومت سستی شہرت کے لیے بارودی سرنگ بچھا کر گئی، مفتاح اسمٰعیل

انہوں نے کہا کہ 22-2021 کے پہلے آٹھ ماہ میں ریکارڈ کیے گئے 12 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں سے 11.5 ارب ڈالر کا خسارہ صرف چار اشیا پیٹرولیم مصنوعات (6.5 ارب ڈالر)، کوئلہ (ایک ارب ڈالر)، پام آئل (ایک ارب ڈالر) اور ویکسین (3 ارب ڈالر) کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہوا۔

انہوں نے اصرار کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے بنیادی طور پر کرنٹ اکاؤنٹ کو سپلس میں چھوڑ دیا ہے۔

اسی طرح انہوں نے مفتاح اسمٰعیل کے اس دعوے کی تردید بھی کی کہ 22-2021 میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 10 فیصد کی بلند ترین سطح کو چھونے والا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 9 ماہ کے لیے مالیاتی خسارہ 3.9 فیصد ہے، یہ 6.4 فیصد (پورے سال کے لیے) ہوگا اور اس کی رقم 5.1 ہزار ارب روپے ہو گی۔

مزید پڑھیں: یوکرین میں جنگ کے باعث جنوبی ایشیا میں معاشی ترقی کی رفتار سست رہے گی، ورلڈ بینک

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اعلان کردہ آخری ریلیف پیکج مالیاتی خسارے کو بڑھا دے گا لیکن شوکت ترین نے اس بات کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 466 ارب روپے کے پروگرام کا اگلے بجٹ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ امدادی پیکج پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں (100 ارب روپے) کی کٹوتی، صوبوں کے حصے میں کمی (140 ارب روپے)، سرکاری کمپنیوں سے منافع (120 ارب روپے) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے اضافی محصولات کی وصولی کے فنڈز کا استعمال کرے گا۔

حالیہ ہفتوں میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 5 ارب ڈالر کی تیزی سے کمی کے بارے میں سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ 2.3 ارب ڈالر کا چینی قرض واجب الادا ہو چکا تھا اور یقینی ہے کہ دو سے تین ہفتوں کے ’کلین اپ پیریڈ‘ کے بعد ختم ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک تنازع کے تصفیے کے لیے مزید 90 کروڑ ڈالر کی لاگت محفوظ ہے جو ریاستی ملکیتی توانائی کی فرموں کی جانب سے کان کنی کے منصوبے میں اپنی شرکت کے لیے ڈالر جمع کرنے کے بعد واپس آجائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک کی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے رقم کے اخراج کی تردید

شوکت ترین نے کہا کہ اگر آپ ان دو عوامل کو شامل کرتے ہیں تو ذخائر کی اصل پوزیشن 14.5 ارب ڈالر ہے، ہمیں ابھی تک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے ایک ارب ڈالر ملنے ہیں، ہم 2.5 ارب ڈالر اکٹھا کرنے کے لیے (عالمی) کیپٹل مارکیٹوں میں بھی جا رہے تھے لیکن سود کی شرح بڑھنے کی وجہ سے انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں