پی ٹی آئی حکومت نے 45 ماہ میں 49.23 ارب ڈالر کا قرض لیا

اپ ڈیٹ 22 اپريل 2022
غیر ملکی قرضوں کا حجم پچھلے ساڑھے تین سالوں میں بتدریج بڑھتا رہا ہے— فائل فوٹو: رائٹرز
غیر ملکی قرضوں کا حجم پچھلے ساڑھے تین سالوں میں بتدریج بڑھتا رہا ہے— فائل فوٹو: رائٹرز

کرنٹ اکاؤنٹ چیلنجز اور زرمبادلہ کے ذخائر سے نبردآزما برطرف پی ٹی آئی حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ (جولائی تا مارچ) میں تقریباً 15.4 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے لیے، جو گزشتہ سال اسی مدت کے دوران حاصل کیے گئے غیر ملکی قرضوں سے 70 فیصد زیادہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق غیر ملکی اقتصادی امداد پر اپنی ماہانہ رپورٹ میں اقتصادی امور کی وزارت نے کہا کہ انہوں نے رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ (جولائی تا مارچ) میں تقریباً 12.77 ارب ڈالر کی غیر ملکی امداد حاصل کی، جو گزشتہ سال اس کے مقابلے میں حاصل کیے گئے غیر ملکی قرضوں سے تقریباً 72 فیصد زیادہ ہے۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کی پاکستان میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، مہنگائی میں اضافے کی پیش گوئی

وزارت اقتصادی امور کی غیر ملکی رقم کی آمد کے بارے میں ماہانہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت نے پورے مالی سال کے لیے مقررہ غیر ملکی امداد کے ہدف کے تقریباً 89 فیصد کو عبور کیا۔

اس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے نئے پاکستان سرٹیفکیٹس میں 1.6 ارب ڈالر سے زیادہ کا غیر ملکی قرض شامل نہیں ہے کیونکہ اس کی اطلاع وزارت اقتصادی امور کے ذریعے نہیں دی گئی تھی، اس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے حاصل کردہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم بھی شامل نہیں ہے جو فروری میں ملی تھی، یہ دونوں قرضے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے الگ الگ رپورٹ کیے ہیں۔

اس کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت کے تقریباً 45 ماہ میں بیرونی ذرائع (پاکستانیوں کے علاوہ) سے کُل غیر ملکی قرضے 49.295 ارب ڈالر تک پہنچ گئے، اگر 45 ماہ میں 1.4 ارب ڈالر کے ہنگامی قرضوں کے ساتھ ساتھ 3 ارب ڈالر سے زائد کے آئی ایم ایف فنڈز کو بھی مدنظر رکھا جائے تو کل غیر ملکی قرضے 54.767 ارب ڈالر تک پہنچ جاتے ہیں۔

وزارت اقتصادی امور کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ غیر ملکی قرضوں کا حجم پچھلے ساڑھے تین سالوں میں بتدریج بڑھتا رہا ہے جہاں 19-2018 میں 10.59 ارب ڈالر سے 20-2019 میں 10.662 ارب ڈالر اور پھر 21-2020 میں 14.28 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور اس کے بعد پہلے کے ابتدائی 9 ماہ میں میں 12.77 ارب ڈالر رہا۔

یہ بھی پڑھیں: سیاسی بحران کے سبب مارچ میں غیرملکی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے، زیادہ درآمدات اور پہلے کے قرضوں کی مالی اعانت کے سلسلے میں ضروری زرمبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کا غیر ملکی قرضوں پر بہت زیادہ انحصار تھا۔

یہ اس حقیقت سے واضح ہوا کہ وفاقی بجٹ 22-2021 میں غیر ملکی قرضوں کے لیے سالانہ بجٹ کا ہدف 14.088 ارب ڈالر مقرر کیا گیا تھا اور حکومت نے پہلے نو ماہ میں 12.77 ارب ڈالر کا قرضہ لیا، حکومت نے پورے 21-2020 میں کُل 14.3 ارب ڈالر کا قرضہ لیا تھا۔

بیرون ملک سے آنے والی رقم کے چار بڑے ذرائع تھے جن میں کثیر الجہتی قرض دہندگان کے 3.95 ارب ڈالر کے بعد سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر کے ٹائم ڈپازٹس، نجی بینکوں سے تقریباً 2.623 ارب ڈالر کے تجارتی قرضے اور 2.041 ارب ڈالر مالیت کے بین الاقوامی بانڈز شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو بجٹ سپورٹ کے لیے 8.88 ارب ڈالر مالیت کی مدد ملی جس میں 1.2 ارب ڈالر کا مختصر مدتی کریڈٹ بھی شامل ہے۔

اس سے 9 ماہ میں کُل غیر پیداواری (غیر پراجیکٹ) امداد 12.16 ارب ڈالر کے پورے سال کے ہدف کے مقابلے میں 10.114 ارب ڈالر ہو گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کُل قرضوں کا 80 فیصد سے زیادہ تیل کی درآمدات، بجٹ فنانسنگ اور زرمبادلہ کے لیے ریزرو پر حاصل کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو مارچ میں تاریخ میں سب سے زیادہ ترسیلات زر ہوئیں، اسٹیٹ بینک

تقریباً 1.82 ارب ڈالر مختلف غیر ملکی فنڈز سے چلنے والے منصوبوں اور تقریباً 83 کروڑ 20 لاکھ ڈالر عوامی ضمانت کے حامل قرضوں کے لیے محفوظ کیے گئے۔

اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ حکومت نے 3.5 ارب ڈالر کے پورے سال کے بجٹ کے ہدف کے مقابلے میں بین الاقوامی بانڈز کے ذریعے 2.04 ارب ڈالر حاصل کیے ہیں۔

اس کے علاوہ حکومت نے 4.87 ارب ڈالر کے پورے سال کے بجٹ کے ہدف کے مقابلے میں بین الاقوامی بینکوں سے تجارتی قرضوں کی مد میں 2.623 ارب ڈالر بھی حاصل کیے، اس میں سے دبئی بینک کو من پسند فنانسر پایا گیا جس نے 2.6 ارب ڈالر میں سے 1.14 ارب ڈالر سے زیادہ کے قلیل مدتی قرضے فراہم کیے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں