عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستان میں خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قلت سے گھروں کے لیے اشیائے خوردونوش کی خریداری میں کمی ہوگی جس سے ان غریب اور کمزور گھرانوں کے غیر متناسب اثرات مرتب ہوں گے جو اپنے بجٹ کا بڑا حصہ ان اشیا پر خرچ کرتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق میکرو پاورٹی آئوٹ لُک کے نام سے جاری کردہ اپنی رپورٹ میں عالمی بینک نے کہا کہ سیاسی تناوؑ اور پالیسی میں خرابیاں بھی طویل میکرو اکنامک عدم توازن پیدا کر سکتی ہیں کیونکہ میکرو اکنامک خطرات منفی پہلو کی طرف جھکے ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے جو مشکلات ہیں ان میں عالمی مالیاتی حالات میں توقع سے زیادہ تنگی، دنیا میں توانائی کی نرخوں میں اضافہ اور کورونا وائرس سے متعلق نقل و حرکت کی سخت پابندیوں کی ممکنہ واپسی کا خطرہ شامل ہے۔

مزید پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے، مفتاح اسمٰعیل

مالی سال 2022 میں غربت 10.2 فیصد تک بڑھنے کا تخمینہ ہے لیکن اعتدال پسند پیش گوئی افق پر موجود ہے، 2022 کی پہلی ششماہی میں درآمدات میں اضافے کی عکاسی کرتے ہوئے مالی سال 2022 میں جاری کھاتے کا خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے 4.4 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔

میکرو اکنامک ایڈجسٹمنٹ کے اقدامات اور کمزور کرنسی سے 2023 کے مالی سال میں زیادہ تر درآمدات بڑھنے کا امکان ہے، جاری کھاتوں کا خسارہ مالی سال 2024 میں جی ڈی پی کے 3.0 فیصد تک محدود رہنے کا امکان ہے کیونکہ اصلاحات سے درآمدی ٹیرف کم ہونے کا امکان ہے۔

مالیاتی خسارہ بشمول گرانٹس کے مالی سال 2022 میں جی ڈی پی کے 6.2 فیصد تک تھوڑا سا چوڑا ہونے کا امکان ہے اور آمدنی کو متحرک کرنے کے اقدامات، خاص طور پر جی ایس ٹی کی ہم آہنگی اور ذاتی انکم ٹیکس میں اصلاحات کی وجہ سے درمیانی مدت میں بتدریج کم ہو جانے کا امکان ہے۔

جی ڈی پی کے حصہ کے طور پر عوامی قرض کے زیادہ رہنے کا امکان ہے لیکن یہ درمیانی مدت میں بتدریج کم ہو جائے گا، آئی ایم ایف ای ایف ایف پروگرام پر منظرنامے کی پیش گوئی کی گئی ہے جو آن ٹریک باقی ہے۔

اعلی بنیادی اثرات، حالیہ معاشی ایڈجسٹمنٹ کے اقدامات اور غربت کی وجہ سے حقیقی جی ڈی پی کی شرح مالی سال 2022 میں 4.3 فیصد اور مالی سال 2023 میں 4.0 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نئی اتحادی حکومت کو درپیش معاشی مسائل

تاہم اس کے بعد مالی سال 2024 میں معاشی نمو 4.2 فیصد تک بحال ہونے کا امکان ہے جس میں میکرو اکنامک استحکام کو سہارا اور عالمی غربت کے دباؤ کو ختم کرنے کے لیے اصلاحات کے نفاذ سے تعاون حاصل ہے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ معیشت کی طویل عرصے سے کمزوریاں اور کم پیداواری ترقی پائیدار بحالی کے لیے خطرات کا باعث ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ غربت مالی سال 2022 کی پہلی ششماہی میں سالانہ اوسطاً 9.8 فیصد تک بڑھ گئی جو مالی سال 2021 کی پہلی ششماہی میں 8.6 فیصد تھی، جس کی وجہ عالمی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ اور ایک کمزور زر مبادلہ ہے۔

اسی طرح سال 2021 کے ستمبر سے غربت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

اسی مناسبت سے اسٹیٹ بینک ستمبر 2021 سے اپنے توسیعی مانیٹری موقف کو ختم کر رہا ہے، جس سے پالیسی ریٹ میں مجموعی طور پر 275 بیسز پوائنٹس اور بینکوں کے کیش ریزرو کی ضرورت میں 100 بیسز پوائنٹس کا اضافہ ہو رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں