میانمار: آنگ سان سوچی کو کرپشن کےکیس میں 5 سال قید

اپ ڈیٹ 27 اپريل 2022
میانمار کی عدالت نے آنگ سان سوچی کو 5سال قید کی سزا سنا دی— فوٹو: رائٹرز
میانمار کی عدالت نے آنگ سان سوچی کو 5سال قید کی سزا سنا دی— فوٹو: رائٹرز

میانمار کی فوجی حکومت کی ایک عدالت نے معزول رہنما آنگ سان سوچی کو بدعنوانی کے 11 مقدمات میں سے پہلے مقدمے میں الزام ثابت ہونے کے بعد 5 سال قید کی سزا سنا دی۔

غیر ملکی خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق نوبیل انعام یافتہ اور میانمار کی فوجی حکومت کی مخالفت کرنے والی خاتون رہنما پر کم از کم 18 الزامات ہیں جن میں مجموعی طور پر لگ بھگ 190 سال کی زیادہ سے زیادہ جیل کی سزائیں ہیں، یہ سب سیاسی واپسی کے کسی بھی موقع کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔

میانمار کے دارالحکومت نیپیتاو کے جج نے عدالت طلبی کے چند لمحوں میں ہی فیصلہ سنا دیا اور کوئی وضاحت نہیں کی، جس نے شناخت ظاہر کرنے سے انکار کیا کیونکہ اس مقدمے کی سماعت بند دروازوں کے پیچھے محدود معلومات کے ساتھ ہو رہی تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ عدالت کی تمام سماعتوں میں پیش ہونے والی سوچی عدالت کے فیصلہ سے ناخوش ہیں اور وہ اس کے خلاف اپیل دائر کریں گی۔

یاد رہے کہ فروری 2021 میں فوج کی بغاوت کے بعد اقتدار سے محرومی سے پہلے جمہوریت کی بحالی کے مختصر عرصے کے دوران 76 سالہ میانمار کی خاتون رہنما نے 5 سال تک حکومت کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ان کو اپنی سزا پوری کرنے کے لیے جیل منتقل کیا جائے گا یا نہیں۔

گرفتاری کے بعد سے سوچی کو ایک نامعلوم مقام پر رکھا گیا تھا، جہاں فوجی حکومت کے سربراہ من آنگ ہلینگ نے پہلے کہا تھا کہ وہ نسبتاً معمولی جرائم کے لیے دسمبر اور جنوری میں سزا پانے کے بعد بھی رہ سکتی ہیں، جس کے لیے اس سے مجموعی طور پر 6 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔

تاہم، فوجی حکومت کے ترجمان فوری طور پر اس معاملے پر بات کرنے کے لیے راضی نہیں ہیں۔

آنگ سان سوچی پر تازہ ترین مقدمے میں الزامات ہیں کہ انہوں نے ینگون شہر کے سابق وزیر اعلیٰ فیو من تھین سے 11.4 کلو سونا اور کل 6 لاکھ ڈالر کی نقد ادائیگی قبول کی تھی۔

تاہم، سوچی نے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے تمام الزامات ماننے سے انکار کیا تھا، جس میں انتخابی اور ریاستی راز سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی، اشتعال انگیزی اور بدعنوانی شامل ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے کہا کہ آزاد خاتون کے طور پر سوچی کے دن مؤثر طریقے سے ختم ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میانمار کی حکومت اور ملک کی کینگرو عدالتیں سوچی کی بڑھتی ہوئی عمر کے پیش نظر ان کے مقدمات کو بہت سست روی سے چلا رہی ہیں جو کہ عمر قید کے برابر ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میانمار میں مقبول جمہوریت تباہ کرنے سے واضح ہے کہ فوجی حکومت سوچی سے تنگ آ چکی ہے اور اب وہ ان کے لیے مزید کوئی راستہ نہیں چھوڑ رہے ہیں۔

میانمار فوجی بغاوت کے بعد سے شدید بحران کا شکار ہے، ملک گیر احتجاج اور عوام کے غصے کو فوج نے بھرپور طاقت سے کچل دیا ہے، ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور کئی لوگوں کو مارا گیا اور تشدد کیا گیا، جس سے اقوام متحدہ نے انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا ہے۔

دوسری جانب عالمی برادری نے میانمار کی فوج پر پابندیاں عائد کر دی ہیں اور سوچی کے ٹرائل کو مضحکہ خیز قرار دے کر مسترد کر دیا ہے، امریکا اور برطانیہ کے میانمار میں سفارت خانوں نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

تاہم، میانمار کی فوجی حکومت نے عالمی براداری کی تنقید کو ’مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے رد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ سوچی نے جرائم کیے ہیں اور انہیں خودمختار عدلیہ کے ذریعہ برابری کے عمل سے گزارا جارہا ہے۔

میانمار کی فوجی حکومت نے ان سے ملاقاتوں کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، بشمول ایک خصوصی جنوب مشرقی ایشیائی ایلچی، جن کی طرف سے بحران ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سوچی کی معزول حکمراں جماعت کے ایک سابق عہدیدار اور شیڈو نیشنل یونٹی گورنمنٹ کے رکن نی فون لاٹ، جس نے فوجی حکمرانی کے خلاف عوامی بغاوت کا اعلان کیا ہے، نے کہا کہ عدالتی فیصلے عارضی ہیں کیونکہ فوجی حکمرانی زیادہ دیر نہیں چلے گی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کتنی دیر تک سزا سنانا چاہتے ہیں، چاہے وہ ایک سال، دو سال، یا جو بھی چاہیں، یہ نہیں چلے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں